| بلاگز | اگلا بلاگ >>

اتنی فرصت کسے

وسعت اللہ خان | 2008-11-20 ،10:56

پچیس تیس برس پہلے غربت اگر زیادہ نہیں تو کم ازکم اتنی ہی تھی جتنی آج ہے۔ لیکن اس دور کے غریب عجیب تھے۔ پڑوس سے آٹا، چائے، چینی، برتن، کرسیاں یا بستر ادھار لینا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ انتہائی نادار بچوں کے رھن سہن اور تعلیم و تربیت میں چچا، ماموں یا نانا دادا یا ہمسائے اپنی تنگدستی کو بھول کرخاموشی سے ہاتھ بٹاتے تھے۔ محلے کے ہرگھر کا احوال دوسرے پر کھلا تھا۔

خوشحال دوکاندار کا بچہ اپنے پڑوسی مزدور کے بچے کے ساتھ بستہ اچھالتا ہوا ایک ہی پیلے سرکاری سکول کا رخ کرتا تھا۔ سینئر بچے کورس کی پرانی کتابیں محلے کے غریب بچوں کو خاموشی سے عطیہ کر دیتے تھے۔ کسی کسی گھر میں بچوں کا ایک آدھ رسالہ آتا تھا۔ اور محلے کے سب بچے اس پر اپنا حق سمجھتے تھے۔ ٹی وی پر بچوں کے لئے بھی روزانہ کوئی نہ کوئی پروگرام ضرور آتا تھا اور جس گھر میں ٹی وی ہوتا شام کو اس کے دروازے محلے کے تمام بچوں پر وا ہوجاتے تھے۔

پھر ہماری زندگیوں سے ہمدرد چچا، ماموں، دادا، نانا، مشترکہ پیلا سکول، بچوں کے رسالے، نو عمروں کے ٹی وی پروگرام، اشیائے ضرورت اور کورس کی کتابیں بانٹنے کا جذبہ اور خاموش دست گیری کی روایت غائب ہوتی چلی گئی۔

غربت عیب زدہ اشتہار ہوگئی۔ نمناک آنکھوں کی جگہ نفسا نفسی، محلے داری کی جگہ ایدھی سینٹر، خاموش دستگیری کی جگہ آدم بو آدم بو چیختے چینلز اور ہمدرد آنکھوں کی جگہ کاروں کے بند شیشے آگئے۔

اب یہ خیال ہی نہیں آتا کہ ہمسائے میں کل کس کا بچہ بیماری سے مرگیا۔ سامنے رہنے والا مزدور اپنے چار بچوں سمیت کیوں اچانک غائب ہوگیا۔ کونے پر بیٹھا خوانچہ فروش لڑکا تین دن سے کیوں دکھائی نہیں دے رہا۔ کام والی ماسی ایک ہفتے سےکہاں ہے۔ تین گھر چھوڑ کے ہر دوسرے تیسرے روز کس کے رونے کی آواز آتی ہے۔

بس یہی ہوتا ہے نا کہ اچانک اخبار میں بچہ برائے فروخت کی تصویر دیکھتے ہی، ریلوے لائن پر خودکشی کرنے والے خاندان کی داستان پڑھتے ہی یا ایدھی ہوم میں چھوڑے جانے والے بچوں کے ٹی وی فٹیج نگاہ سے گذرتے ہی منہ سے نکلتا ہے ۔۔۔ 'ہا آہ۔۔۔ ہاؤ سیڈ ۔۔۔۔۔وٹ اے پٹی۔۔۔' 'حکومت بے شرم ہوگئی ہے جی۔۔۔ دلوں سے خوفِ خدا اٹھ گیا ہے جناب۔۔۔'
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ آج (بیس نومبر) دوپہر بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ہم نے ایک واک آرگنائز کی ہے آپ پلیز ضرور آنا اور گڑیا کو لانا مت بھولنا ۔۔۔

اتنی فرصت کسے کہ بحث کرے
اور ثابت کرے کہ میرا وجود
زندگی کے لئے ضروری ہے ( جون ایلیا)

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 13:10 2008-11-20 ,Mehdi Ali :

    My friend, you made my cry...

  • 2. 13:23 2008-11-20 ,عبدالحق قريشی :

    جی، بالکل بجا فرمايا آپ نے ليکن اب ہمسايہ بچارہ بھی کيا کرے. اب تو جہاں بھوک ہے پوری کالونی بھوکوں کی عليحدہ بنا دی جاتی ہے اور ممکن ہو تو آبادی کےگرد ديوار بنا کر شہر کی خوبصورتی کو محفوظ کيا جاتا ہے. رہ گئی بات ذرعی فارموں کو گھر بنا کر رہنے والی کلاس کی تو انہيں ضرور اپنے پڑوس میں بنے محل کے مکينوں سے پوچھ لينا چاہیے کہ کہيں آپ بھو کے تو نہی سوگئے؟

  • 3. 13:24 2008-11-20 ,کامران خان :

    آپ کے مضمون کا پہلا جملہ ہی غلط ہے

  • 4. 13:26 2008-11-20 ,Shahid :

    يہ کالم پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ لکھنے والا ايک حساس دل رکھتا ہے اور عمدہ انداز ميں معاشرہ کی خرابيوں اور قابل اصلاح باتوں کا ذکر ہوتا ہے۔ جس سے لکھنے والے کا خلوص اور درد دل ظاہر ہوتے ہيں۔ اللہ آپکی اصلاح معاشرہ کی کوششوں ميں برکت دے۔
    اللہ کرے زور قلم اور زيادہ

  • 5. 13:29 2008-11-20 ,Sadaf Nabeel :

    غریبِ شہر تو فاقوں سے مر گیا عارف
    امیرِ شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی

  • 6. 14:00 2008-11-20 ,nazir ahmed :

    Great... What a great impression of how selfish we have become. What a shame...What a shame on me...I have become selfish, I don't care, I don't think about anyone other than my dear ones... I have become a product of the global village, I have become a product of global awareness, I have become a product of global economy, I have become a product of moderate enlightenment, I have become an animal!

  • 7. 14:16 2008-11-20 ,سعد خالد :

    ہم لوگ گفتار کے غازی ہیں، کردار کے نہیں۔۔۔

  • 8. 14:21 2008-11-20 ,سھيل - دبئ :

    خان صاحب،
    آنسو نکال گئے یہ پڑھ کر، واقعی آپ نے جو لکھا ہے سچ لکھا ہے؟


    Life is stranger than fiction

  • 9. 14:27 2008-11-20 ,غلام نبی گھوٹکی :

    بچن یاد آگیا، سینئر خود ہی کتابیں دیتے تھے

  • 10. 14:43 2008-11-20 ,kashif, sadhaar, faisalabad :

    جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹر کے رہ گيا
    ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو

  • 11. 15:37 2008-11-20 ,فضل عباس :

    کیوں ایسی تحریریں لکھ کر جینا اور مشکل کرتے ہیں آپ؟
    لیں، پھر احساس ہوگیا کتنے بے بس ہیں ہم۔۔

  • 12. 15:42 2008-11-20 ,Muhammad Azhar :

    ايک عرصے سے آپ کا خاموش قاري ہوں پر آج آپ کا بلاگ پڑھ کہ يہ ضرور کہوں گا کہ آپکی وسعت تاحد نگاہ وسيع ہے کاش کہ کبھی آپ سے ملاقات ہو سکے خدا آپ کا حامی و ناصر ہو

  • 13. 15:57 2008-11-20 ,Natiq Afridi :

    وسعت اللہ خان صاحب آداب
    امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ میں ایک عرصے سے آپ کے ریڈیو کالم سنتا آرہا ہوں اوراب کچھ عرصے سے انٹرنیٹ پر بھی اسے پڑھنے اور سردھننے کا موقع مل رہا ہے۔ اخباری کالم کے حوالے سے جاوید چوہدری کا میں مداح ہوں تو ریڈیو اور آن لائن کالم یا بلاگ میں آپ جناب کانام سرفہرست ہے۔ وجہ وہی عام آدمی کے مسائل کا گہرا ادراک اور اس جانب ارباب اختیار کی توجہ دلانا ہے۔

    ویسے تو میں بھی آپ کے کاروان صحافت کا ایک پیادہ ہوں لیکن میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ میں عام یا غریب آدمی کی زندگی انتہائی قریب سے دیکتھا ہوں اور اس پر سوائے کڑھنے کے خود کو بے بس و لاچار پاتا ہوں۔ قلم کے تقدس اور سچائی کی طاقت کا احساس کرتے ہوئے کبھی میں بھی کالم نگاری کا سوچتا ہوں لیکن پھر بقول عارف وقار صاحب کے کالم نگاروں اصلی اور شوقیہ دونوں قسم کے سینکڑوں کی تعداد میں ہونے اور ہزاروں کی تعداد میں کالموں کے شائع ہونے پر شاذ و نادر ہی کسی حکمران کے کان پرجوں رینگتی ہوگی ورنہ روزانہ عوامی اوردیگر مسائل پر شائع ہونے والے سینکڑوں کالم باذوق قارئین کے لیے آگہی اور تفریح طبع سامان فراہم کرنے کے کس کام کے۔ لیکن ضمیر نہیں مانتا اور کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا ہی بہترہے۔ میں اس وقت ایک عجیب وغریب مخمصے کاشکارہوں۔ کیونکہ میں وقت گزاری اور خبروں پر تبصرے قسم کے کالموں کا روادار نہیں اور واقعات کا پس منظر جاننے اور سچ کی تلاش میں بے پناہ مشکلات بشمول جان سے گزرجانا، سب آپ کے علم و مشاہدے میں ہے۔ آپ سے اس سلسلے میں درمیانی راہ کے حوالے سے مشورہ درکار ہے۔ امید ہے اپنی صحافیانہ شفقت سے محروم نہیں فرمائیں گے۔
    والسلام۔ نیازمند ناطق آفریدی

  • 14. 15:59 2008-11-20 ,sana :

    وسعت انکل آپ نے جو لکھا تقريبًا درست لکھا ہے۔ بہتر تھا آپ بيس تيس سال پہلے کی آبادی اور آج کی آبادی کو بھی ديکھتے۔ تب آبادی کم ہونے کی وجہ سے ہمارے سکول کي ايک کلاس ميں پندرہ سے بيس سٹوڈنٹ بيٹھتے تھے اور ہمارے ٹيچر ہم پر انفرادي توجہ ديتے تھے ليکن آج تو ايک کلاس ميں بچے بھيڑ بکريوں کی طرح ساٹھ ستر کی تعداد ميں ہوتے ہيں جس کی وجہ سے ٹيچر ايک ايک پر توجہ نہيں دے سکتے۔ پچيس تيس سال پہلے آج کي طرح ايک خاندان درجن بھر افراد پر مشتمل نہيں ہوتا تھا اسليے ہمسايوں کو غريبوں کی خبر گيری لينے ميں دشواری نہيں تھي۔ ليکن آج تو اپنے گھر والوں کی خبر حال چال پوچھنے کا وقت نہيں ملتا تو ہمسايوں کی خبر کون رکھے؟ ميں تو سمجھتي تھي وسعت انکل ہر خبر پر نظر رکھتے ہيں ليکن آج ميری آنکھيں کھل گئی ہيں۔ چليں کوئي بات نہيں دير آئد درست آئد۔۔۔

  • 15. 17:20 2008-11-20 ,عا لم شاہ :

    جو کچھ بھی اُپ نے فر مايا بجا ہے ليکن ہم اپنی بے بسی پر ہی روتے رہيں گے يا کچھ کريں گے بھی

  • 16. 18:06 2008-11-20 ,عمر احمد بنگش :

    میرا تو سر شرم سے جھک گیا ہے
    واقعی کیا ہو گیا ہمیں،
    میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مانسہرہ میں زلزلہ زدہ علاقوں میں کام کر رہا ہوں، دیہاتی علاقوں اور شہری علاقوں میں ایک سی صورت حال ہے،
    دل خون کے آٓنسو روتا ہے، پر کیا کریں یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم انتہائی ظالم لوگ ہیں،
    خدا نے ہمیں معاف نہیں کرنا!

  • 17. 20:35 2008-11-20 ,اAhmed RazaKhan :

    ہم نے خود کو کھو ديا ہے اور شائد اب خود کو ڈھونڈنا بھی نہيں چاہتے بس صرف يہی خواہش رہ گئی ہے ہماری کہ ہميں سب کچھ مل جائے، خواہ کسی اور کو کچھ ملے يا نہ ملے۔

  • 18. 21:35 2008-11-20 ,Khurram Malik :

    Can't stop tears. where to go... whom to ask...but this is how it is...

  • 19. 6:05 2008-11-21 ,عابدہ رحمانی :

    اقدار بدل گئے، وقت بدل گيا، بھکاری بے تحاشا بڑھ گئے ڈاکو لٹيرے بڑھ گئے۔ مارے گئے تو شريف اور ايماندار اور ان پر آپ کا کالم صحيح ہے۔

  • 20. 6:39 2008-11-21 ,اعجاز احمد عباسی :


    انسان ہی انسان کو بناتا ہے گداگر
    ورنہ قدرت کی عنايت ميں افلاس نہيں

    سہمے ہوے بيھٹے ہيں شرارت نہيں کرتے
    افلاس نے سکھادی تہزيب بچوں کو

  • 21. 6:41 2008-11-21 ,sajjadf hussain hazara :

    Dear writer,
    I really love your this article, a stimulating article, I would say. Allah karey zor-e-qalam aur zyada.

  • 22. 7:05 2008-11-21 ,شا ہين :

    يہ سب ٹھيک کرنا ہے تو ہمارے پيلے کپڑے والے سکول بحال کروانے کے ليے آپ جيسے صحافي زور ڈاليں۔ ان مقدس مدرسوں کے اساتذہ کا وقار بحال کرنے کے ليے آپ جيسے لوگ اپنے اپنے پليٹ فام سے جدوجہد کريں۔ ہميں ايسے اساتذہ کی ضرورت ہے جويہ سکھائيں کہ ماں باپ کا ادب کيسے کرتے ہيں، بڑوں سے بات کيسے کی جاتی ہے اور اس جيسی باتيں جيسے ہمارے محترم استاذوں نے سکھائيں۔ يہ پرائويٹ سکولوں کے ملازم اور معاشرے کے ايسے بيچارے لوگ جنکو کہيں ملازمت نا ملنے پر مجبوراُ استاد کی اداکاری کرنی پڑتي ہے، وہ کيا معاشرے کی رہنمائی کرے گا۔ غرض باتيں تو بہت ہيں مگر بزرگ فرماتے ہيں کہ عقلمند کے ليے اشارہ ہی کافی ہے۔

  • 23. 10:25 2008-11-21 ,محمد بلال افتخار خان :

    ہم بے حس ہو چکے ہین، زندہ لاشین جو پیسے پیسے اور پیسے کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔

  • 24. 14:37 2008-11-21 ,naheem :

    اسلام و علیکم
    میرا خیال ھے اس اردو ویب سایٹ پر اردو ھی اچھی لگتی ھے

  • 25. 15:06 2008-11-21 ,سمیع اللہ خان :

    افلاس نے میرے بچوں کو جینا سکھا دیا
    سہمے ہوئے رہتے ہیں، شرارت نہیں کرتے

  • 26. 15:18 2008-11-21 ,نجيب الرحمان سائکو، لہور، پاکستان :

    'غربت بھي اپنے پاس ہے اور بھوگ ننگ بھي
    کيسے کہيں کہ اس نے عطا کچھ نہيں کيا'

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔