سب سے اچھا تحفہ
دفتر آتے ہوئے ٹرین میں اخبار کھنگالنا شروع کیا تو ایک خبر پر نظر پڑی کہ امریکہ میں ایک انیس سالہ لڑکے نے اپنے آپ کو قابل نفرت اور بیکار قرار دیتے ہوئے سینکڑوں لوگوں کے دیکھتے دیکھتے خودکشی کر لی۔ ہے۔
اس لڑکے نے کمپیوٹر کے ساتھ کیمرہ نصب کیا اور انٹرنیٹ پر پیغام لکھ دیا کہ وہ خودکشی کرنے والا ہے۔ خبر کے مطابق دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں ناظرین یہ منظر دیکھنے کے لیے اپنے اپنے کمپیوٹروں کی سکرینوں سے چپک گئے۔ ان کے سامنے لڑکے نے گولیاں کھائیں اور پھر کبھی نہ اٹھنے کے لیے اوندھے منہ لیٹ گیا۔ کسی نےپولیس کو خبردی جس نے آ کر لاش اپنے قبضے میں لے لی۔
ورق گردانی جاری رکھی تو ایک سرخی پر جا کر نظر ٹکی 'قاتل کی آنکھیں'۔ یہ خبر ایک سولہ سالہ لڑکے کے بارے میں میں تھی جس نے خبر کے مطابق شغل کے لیے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مِل کر لاتوں اور گھونسوں سے ایک بندے کو مار دیا۔ خبر کے مطابق پھر سولہ سالہ قاتل گھرگیا اور اپنے موبائل فون پر اپنی فلم بنائی جس میں اپنے کارنامے پر خوشی کا اظہار کیا گیا۔ وڈیو کیمرے کو اپنے چہرے پر مرکوز کرتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ قاتل کی آنکھیں ہیں۔ جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس فلم کو دیکھنے کے بعد قاتل کے رویے کو بیان کرنے کے لیے ایک لفظ کی تلاش میں تھے اور وہ لفظ صرف 'فخر' ہی ہو سکتا ہے۔
ابھی یہ دونوں خبریں ذہن میں تازہ تھیں کہ رات کی شفٹ کے دوران ٹی وی پر ایک مختلف خبر سنی۔ امریکہ میں برینڈن فوسٹر گیارہ سال کی عمر میں چل بسا۔ فوسٹر جان لیوا مرض کا شکار تھا اور اسے چند برس سے معلوم تھا کہ وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہے گا۔ ایک روز اس نے صرف ایک خواہش سے ہزاروں لوگوں کی زندگی بدل دی۔ فوسٹر کی ایک بار ہسپتال سے واپسی پر بے گھر لوگوں کے ایک ٹھکانے پر نظر پڑی تھی۔ اسی لمحے اس نے اپنی زندگی کی آخری خواہش طے کر لی۔ وہ چاہتا تھا کہ جب تک زندہ ہے روزانہ ان لوگوں کو کھانا کھلائے۔ فوسٹر چلنے پھرنے سے قاصر تھا لیکن اس کی خواہش اس کے دوستوں نے پوری کر دی۔ انہوں نے فوسٹر کی مرضی کے مطابق دو سو مختلف طرح کے برگر بنائے اور بے گھر لوگوں کو پہنچا دیے۔ خبر میں بتایا گیا کہ ملک بھر سے لوگ بھی بڑی تعداد میں اس کام میں شریک ہو گئے تھے۔ فوسٹر نہیں رہا۔ ان کی والدہ ٹی وی پر کہہ رہی تھیں کہ ان کے بیٹے نے گیارہ سال میں اتنا کام کیا جو زیادہ تر لوگ کئی دہائیوں میں بھی نہیں کر سکتے۔ اور یہ سب صرف ایک خواہش کا اظہار کرنے سے۔ میرا خیال ہے کہ جن لوگوں کو کھانا ملا اور جنہوں نے بے گھروں کو پہنچایا امید، مثبت سوچ ہمیشہ کے لیے ان کی زندگی کا لازمی جزو بن گئی ہو گی۔اس سے اچھا تحفہ کیا ہو سکتا ہے۔ چند روز قبل ریکارڈ ایک انٹرویو میں برینڈن فوسٹر کا آخری پیغام تھا کہ اپنے خواب پورے کرو اور کسی چیز کو راستے کی رکاوٹ مت بننے دو۔ اس کے جنازے پر جنگلی پھولوں کے بیج بکھیرے جائیں گے تاکہ اس کی من پسند شہد کی مکھیاں پھل پھول سکیں۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
بچے آئينوں جيسے ہوتے ہيں ، اسد چودھري صاحب - جو پائيں گے وہي منعکس ہو گا ...
افسوس برينڈن فوسٹر مسلمان نہيں تھا مگر ہر مسلمان کيلئے اللہ کی طرف سے اس ميں ايک پيغام ہے- کسی بھی غير مسلم کا کوئی بھی اچھا عمل آخری ميں اسے کوئی نفع نہيں ديگا- کسی بھی نيک عمل کاآخرت ميں نفع حاصل کرنے کيلئے ايمان کا ہونا شرط ہے۔ اور اگر کوئی کسی کو نيک عمل کرنے ميں مدد ديگا يا اسے نيک عمل کی طرف ترغيب ديگا تو ترغيب دينے والے کو بھی اس نيک عمل کا برابر کا اجر ملے گا اور عمل کرنے والا جب جب يہ عمل کريگا، ترغيب دينے والے کو تب تب اجر ملے گا-
اس بلاگ کا مرکزی خيال : پانچوں انگلياں ايک جيسی نہيں ہوتی ، ظاہر سی بات ہے
کچھ کہانی سمجھ ميں نہيں آئی۔ پورا کالم پڑھنے کے بعد سوچ رہا ہوں، ہسوں يا افسوس کروں۔
اسد صاحِب بہترين بلاگ لِکّھا آپ نے ،يہ دُنيا ہے اور دُنيا نام ہے زِندگی اور موت کے فلسفے کو جان لينے کا ليکِن بہت کم لوگ اِس فلسفے کو جان کر اِس پر عمل پيرا بھی ہو پاتے ہيں کہ جانا تو سبھی کو ہے مگر بہت کم لوگ ايسا کُچھ کر جانے کو کر کے جانے والے کام سمجھتے ہيں جو جانے کے بعد بھی نام زِندہ رکھنے کا سبب بن سکيں برينڈن فوسٹر بھی ايک ايسا ہی بچہ تھا جو نا صِرف لوگوں کے دِلوں ميں اچھے کام کی وجہ سے ہميشہ زِندہ رہے گا بلکہ اور بہت سے لوگوں کے لِۓ بھی ايک مِثال قائم کر کے ايک نئی راہ دکھا گيا اور يہ کُچھ بِگڑے لوگ جو يقينی ذِہنی مريض ہيں اپنی بھٹکی ہُوئی سوچوں ميں مزہ تلاش کر رہے ہيں صِرف
„رجے پيٹ کی مستياں ہيں„
کاش کہ مُثبت سوچوں کو پنپنے کا موقع ديا جائے ،اے کاش
اسد انکل آپ نے ايک بات تو بتائي نہيں۔ بلاگ کے ساتھ جس نيگرو لڑکے کی تصوير چھاپی ہے يہ کس کی ہے؟ خودکشی کرنے والے کی ہے يا قاتل لڑکے کی ہے يا برينڈن فوسٹر کی ہے؟ شکل سے مجھے تو يہ برينڈن فوسٹر لگتا ہے ليکن آج شکل پر اعتبار کرکے کوئي دھوکہ نہيں کھا سکتا۔ داڑھيوں کے نيچے حيوان نما درندے اکثر نکلتے ديکھے گئے ہيں۔