| بلاگز | اگلا بلاگ >>

پاکستان انڈیا بیان بازی

اصناف:

اسد علی | 2009-08-29 ،17:01

india_village226.jpgانڈیا پاکستان میں بیان بازی کا رکا ہوا سلسلہ جب بھی شروع ہوتا ہے دماغ میں خطرے کے سائرن بج اٹھتے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ بیان بازی کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے لوگوں میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی شدید خواہش کی آبیاری شروع ہو جاتی ہے۔

قیمتی وقت اور وسائل اپنا کام کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور دوسرے کی ہار کی تمنا میں ضائع ہو جاتے ہیں۔ نقصان اس میں دونوں کا ہوتا ہے، لیکن اس وقت پاکستانیوں کی نسبت انڈیا والے شاید یہ بوجھ اٹھانےکے زیادہ متحمل ہیں۔

سیاسی عمل جاری رہنے کی وجہ سے انڈیا کے ادارے مضبوط ہوتے گئے اور
انڈیا میں اب اقتدار ان طبقات تک بھی پہنچ چکا ہے جو ہزاروں سال سے پچھڑے ہوئے تھے۔ پاکستان میں سن پچاسی کے بعد سے آٹھ بار انتخابات ہوئے لیکن ایک بار کے سوا ہمیشہ حکومت کا تختہ الٹا گیا اور کبھی لوگوں کو فیصلہ سنانے کا موقع نہیں ملا۔

انتخابات کی وجہ سے انڈیا میں لوگوں کو ساتھ رکھنے کے لیے سیاستدانوں نے غیر معمولی اقدامات کیے اور لوگوں کا فائدہ ہوتا چلا گیا۔ پاکستان میں بیرونی سازشوں سے نمٹنے کے نام پر لوگوں نے سیاست میں ہر مداخلت برداشت کی۔انڈیا کی مختلف ریاستوں میں فلاحی کاموں کی مختلف مثالیں ملتی ہیں۔

انڈیا میں انتخابات کے دوران تمل ناڈو میں مجھے بتایا گیا کہ ماضی میں قانون بنایا گیا تھا کہ ہر اس طالب علم کو جس کے گھر میں پہلے کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں مقابلے کے امتحان میں پانچ اضافی نمبر ملیں گے۔ ایک پروفیسر نے بتایا کہ یہ قانون بعد میں ہائی کورٹ نے ختم کر دیا لیکن اس دوران ایک یا دو مقابلے کے امتحان ہوئے جس میں پچھڑی ہوئی ذاتوں کے بچوں کو بہت فائدہ ہوا۔

اسی طرح خواتین کی صورتحال میں بہتری کے لیے کسی ریاست میں لڑکی پیدا ہونے پر والدین کو پیسے ملتے ہیں، کہیں اس کے سکول میں داخلے پر اور کہیں شادی پر بھی پیسے دیے جاتے ہیں۔ کیرالہ میں ریاستی حکومت کی تعلیمی میدان میں مراعات کے سبب وہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شرح خواندگی ترانوے فیصد ہے۔ تمل ناڈو میں یہ شرح تہتر فیصد ہے۔

کیرالہ میں لوگوں نے بتایا کہ 'ہم ہر بار حکومت بدل دیتے ہیں تاکہ سیاستدان لاپروا نہ ہو جائیں'۔ کانگریس کی حالیہ انتخابات میں کامیابی کے لیے ان کی روزگار سکیم کا ہاتھ ہے جس کے تحت ریاست دیہات میں ہر شخص کے لیے روزگار فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔

ملک کی کسی ریاست میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں پہنچنے پر یورپ کی فلاحی ریاستوں کی طرح لوگوں کو پنشن ملتی ہے تو کہیں انتخابی وعدے کے مطابق آٹا چاول اتنا سستا کے ہر شخص کی قوت خرید میں ہے۔ اسی طرح بچوں کو سکول میں کھانا بھی مفت ملتا ہے۔

انڈیا میں جہاں کسانوں کی خودکشیوں کی خبریں ملتی ہیں وہیں پنجاب میں کسانوں کے لیے بجلی پانی مفت ہے۔ پنجاب میں ایک پروفیسر نے بتایا کہ سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے کوئی حکومت یہ مراعات واپس لینے کا نہیں سوچ سکتی۔

انڈیا میں اقتدار کی تقسیم سیاسی میدان تک محدود نہیں بلکہ انتظامی امور میں بھی ہر طبقے کی شمولیت بنائی جا رہی ہے اور اب کئی برسوں سے وہاں سول سروس کا امتحان انگریزی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح افسر بننے کے لیے انگریزی میڈیم ہونا ضروری نہیں رہا۔

پاکستان میں عوام کیونکہ حقیقت میں طاقت کا سرچشمہ نہیں بن سکے اس لیے انہیں کسی چیز میں حصہ نہیں ملا۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:57 2009-08-29 ,اے رضا :

    چودھری صاحب ، قائدين نالائق ہوں تو انجام کار يہي ہوتا ہے کہ اِدھر ہاتھ پير جوڑے کھڑے ہيں اُدھر مزاج ہي نہيں ملتا ہے - چين نے ہانگ کانگ واپس ليا يا نہيں عزت وآبرو کے ساتھ - سمجھ سکيں تو اسی ميں سب کچھ رکھا ہے -

  • 2. 18:05 2009-08-29 ,نجیب الرحمٰن سائکو، لاہور، پاکستان :

    چوہدری صاحب، آپ نے اس بلاگ میں پاک بھارت کا جو تقابلی جائزہ لیا ہے وہ بہت ہی موزوں ترین اور عین درست ہے۔ یہ بھی بجا کہ پاکستانی قومی سلامتی کے نام پر آمریت برداشت کرتے رہے ہیں، لیکن دوسری طرف یہ بھی غلط نہیں ہے کہ انڈین دانستآ یا ناداستآ ‘جمہوریت‘ کے نام پر ‘پاکستان دشمنی‘ بھی کشید کرتے رہے ہیں جو کہ خطہ کے لیے کوئی نیک شگون نہیں بلکہ ‘استعمار‘ کے لیے کسی ‘خوشخبری‘ سے کم نہیں ہے۔ یہ بات بھی ‘انڈین‘ کی ‘ڈپلومیسی‘ کو آشکار کرتی ہے کہ وہ ایک زمانہ میں ‘سرمایہ دار‘ (امریکہ) کے دشمن ‘سوشلزم‘ (روس) سے ‘دو جسم مگر اک جان ہیں ہم‘ کی طرز پر وابستہ رہا ہے لیکن آج اس کے دشمن ‘سرمایہ دار‘ کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ اس صورتحال میں یہ کہنا آسان ہو گیا ہے کہ انڈیا کی ‘سیاسی نظریاتی سرحدیں‘ نامکمل، ناپختہ اور ادھوری ہیں اور اس کے نزدیک سیاست ‘چلتی کا نام گاڑی‘ ہی کی حیثیت ہی رکھتی ہے۔

  • 3. 19:45 2009-08-29 ,خاور کھوکھر :

    بہت اچھا لکھا ہے ، ایک حساس ادارے نے پاک لوگوں کو ھندوستان کے ساتھ مقابلے بازی میں ڈال دیا هوا ہے ـ لیکن یه مقابلے بازی صرف اسلحے تک محدود هے کیا ہی اچھا هو که لکھنے والے اس طرح لکھیں که انڈیا کے ساتھ جمہوری اداروں کا مقابله هونے لگے ـ

  • 4. 20:03 2009-08-29 ,علی گل سڈنی :

    آپ نے بجا طور پر صحيح لکہا ہے جب تک عوام کو اپنے فيصلے کرنے کا مو قع نہيں ديا جاتا اور تمام فيصلے ايجنسياں يا ان کے ملاں کريں گے تو ملک ميں افراتفری اور لاقانونيت ہی کی پينشن ملے گي۔ احترام آدميت ختم ہو جائے گا ـ ايسے ميں کوئی اپنے ملک سے پيارکيسے کرے گاـ نيم ملاں نے نہ صرف فوجي انقلاب کي راہ ہموارکي بلکہ اسلام کی تبليغ ايسے کی کہ ہر عقيدے کا مسلمان دوسرے عقيدے والے کو کافر کہنے لگاـ ہندؤں ميں بہی ذات پات ہے ليکن وہ ايک دوسرے کو کافر نہيں کہتے اور اپنے ملک سے محبت کرتے ہيںـ يقين کريں يہاں پرديس ميں پاکستانی بتاتے ہوئے بہت شرم آتی ہےـ مجبوران ہميں بہي اکثر اوقات انڈين کہنا پڑتا ہےـ

  • 5. 23:46 2009-08-29 ,sana khan :

    ميں نہيں مانتی کےدونوں ملکوں کےبيچ ميں عوامی مکا لات شروع ہے ايک دوسرے کو نيچا دکھانے کيلۓ ليکن دونوں ملکوں کےسياستدانوں ميں ضرور يہ وائرس عام ہے،ممبئی ميں تو انگلش ميڈئيم سينٹس اسکولز بھی سرکاری ہيں اورکي اچاہيۓجب بہترين تعليم وہ بھی مفت ليکن اس کےبرعکس يہاں انٹرنيشنل ليول يہ معياری تعليم مڈل کلاس تک کيلۓ خواب ہے،ہم نےصرف ايٹمی طاقت بننے کی کاپی کی انڈيا سے پر اچھا کچھ نہيں سيکھا افسوس

  • 6. 0:18 2009-08-30 ,نجیب الرحمٰن سائکو، لاہور، پاکستان :

    ‘بات تو سچ ہے لیکن بات ہے رسوائی کی‘

  • 7. 1:45 2009-08-30 ,عاطف خان :

    جنا ب آپ کا بلاگ پڑھ کر تو ایسے لگتا ہے جیسے انڈیا میں یورپ سے بھی زیادہ خوشحال ہیں -
    اپنے سے پانچ گنا چوتھے ملک سے مقابلہ کر کے تو انڈیا کی برائی ظاہر کرنے کی ناکام کوشش ہے .
    ایسے چند ایک کارنامے سنا کااحساس کمتری کی مری پاکستانی قوم کو مرعوب تو کیا جا سکتا ہے مگر انڈیا کی حالت آج بھی قبل رحم ہے .


  • 8. 7:00 2009-08-30 ,اعجاز اعوان :

    چودھری صاحب خير سے ہمارے ملک ميں بھی عوام ہی طاقت کا سر چشمہ ہيں مگر ووٹ کے ذريعے نہيں بلکہ صرف لانگ مارچ کے ذريعے۔

  • 9. 12:27 2009-08-30 ,shaukt :

    اس بات ميں دو آرا نہيں ہو سکتيں کہ انڈيا سياسی طور پر ہم سے آگے ہے اور مسلسل آگے بڑھ رہا ہے يہ بنيادی فرق ہے جب تک ايک مخلص قيادت پاکستان کو ميسر نہيں ہوتی ہم تنزلی کا شکار رہيں گے موجودہ قيادت اپوزيشن سميت اپنی نسلوں کا مستقبل سنوارنے ميں مصروف ہيں اس صورتحال ميں کسی اوردشمن کی ضرورت نہيں ہے ہم خود اس کام کو بخوبی کر ليں گے

  • 10. 19:42 2009-08-30 ,wasif nasir :

    دیکھنا یہ ہے کیا ان اقدامات کے نتیجے میں ایک عام انڈین کی حالت تبدیل ہوئی۔ ورنہ اس قسم کے اقدامات یا اعلانات تو یہاں بھی بہت ہوتے ہیں۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔