اہلاً و سہلاً مشرفاء!
جب تاحیات صدر ہِز ایکسیلینسی فیلڈ مارشل الحاج ڈاکٹر عیدی امین اپنی تین بیگمات، درجن سے زائد بچوں، جہاز بھر ذاتی مال و اسباب اور ملازمین کے ہمراہ تین لاکھ کے لگ بھگ لاشیں دفنانے کے بعد ایک بوئنگ طیارے میں سوار ہو کر کمپالا سے طرابلس بھاگے تو دو ہی برس میں میزبان معمر القذافی کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا۔
اس موقع پر شاہ خالد بن عبدالعزیز نے عیدی امین کو سندیسہ بھیجا کہ آپ سعودی عرب کی روایتی میزبانی سے تاحیات لطف اٹھانے کے لیے جدہ میں مختص محل میں سیاسی آلودگی سے پاک زندگی گذار سکتے ہیں۔ عیدی امین نے پچیس برس تک مہمانی کا لطف اٹھایا اور سولہ اگست دو ہزار تین کو جدہ کے کنگ فیصل اسپتال میں جان دے دی۔ مرنے سے ایک ماہ پہلے انکی بیوی مدینہ نے یوگانڈا کے صدر یووری موسوینی سے اپیل کی کہ دادا عیدی امین کو مرنے کے لیے وطن آنے دیا جاوے۔ موسوینی نے لکھا خوش آمدید۔ لیکن آپ کے شوہر کو اترتے ہی اپنے گناہوں کا قوم کو حساب دینا پڑے گا۔ عیدی امین کو دو درجن سوگواروں نے جدہ کے رویس قبرستان میں لے جا کر دفن کر دیا۔
عمر عبداللہ جعفری یمن کی حزبِ اختلاف سنز لیگ پارٹی ( رے) کے قائد ہیں مگر یمنی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزامات لگنے کے بعد نوے کے عشرے سے سعودی حکومت کے مہمان ہیں۔
محمد عثمان المرغانی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس سوڈان کے صدر ہیں۔ چونکہ صدر عمر البشیر انہیں پسند نہیں کرتے اس لیے محمد عثمان کی میزبانی کا بار بھی سعودی حکومت کو اٹھانا پڑ گیا۔
اپریل دو ہزار سات میں سعودی حکومت نے بیگم خالدہ ضیا کو بھی کرپشن کے مقدمات سے بچانے کے لیے اہلِِ خانہ کے ہمراہ جدہ میں محلاتی رہائش کی پیش کش کی۔ خالدہ نے یہ پیش کش قبول بھی کر لی لیکن عین وقت پر جانے کیا خیال آیا کہ ارادہ ترک کردیا۔
نواز شریف کا قصہ تو آپ کو معلوم ہی ہے، اور اب اہلاً و سہلاً مشرفاء کی اطلاعات بھی گردش میں ہیں۔
کبھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ سعودی حکومت نے 'مدینے کو جانے کو جی چاہتا ہے' کا ورد کرنے والے کسی عام سے غیر ملکی ایرے غیرے کو اپنے ہاں پناہ دی ہو۔ جب دو ہزار تین میں عراق پر امریکہ نے قبضہ کیا تو ہزاروں اجڑے عراقیوں نے ہمسایہ ممالک کی سرحدوں پر دستک دینی شروع کی۔ کویت اور سعودی عرب واحد ہمسائے تھے جنہوں نے ان بےحال عراقیوں پر اپنے دروازے مضبوطی سے بند کر دیے۔ بلکہ سعودی عرب نے تو عراق سے متصل سرحد پر باڑھ لگانے کے لیے سات ارب ڈالر بھی خرچ کردیے۔
اب تک میں نے جن شخصیات کا تذکرہ کیا ان سب میں قدرِ مشترک ایک ہی ہے کہ سب نے یا تو اپنے اپنے ممالک کے قوانین کو پامال کیا یا پھر ان پر قانون کی پامالی کا الزام لگا۔
لیکن جب خود سعودی باشندے ملک کے قوانین کو پامال کرتے ہیں تو پھر گردن بچانے کے لیے انہیں مغربی ممالک کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ میں گذرے جولائی میں ایک سعودی شہزادی کو عدالتی پناہ دی گئی ہے، جبکہ دس دیگر سعودی باشندے سیاسی پناہ کی قطار میں کھڑے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
وسعت بھائی، ماشا اللہ اچھی پاری کھيلی ہے مگر خدا نخواستہ آپ کے بے لگام قلم نے اگر پاکستانی حکمرانوں کو دلبرداشتہ کرديا تو ؟ لہذا محترم دھيرج رکھيے گا، کسی کے بھی پيچھے اپنے قلم کو لٹھ کی طرح گھمادينے والی آپ کی يہ عادت کہيں مہنگی نہ پڑجائے، ويسے بزرگوں نے بھی کہا ہے کہ برے وقتوں کے لیے کچھ پس انداز کرنا چاہيے، ويسے آپ کا يہ لٹھ گذرتے وقت کے ساتھ اتنا بے لگام کيوں ہوتا جارہا ہے؟
سعودی شيخ صرف اپنے جيسوں کو ہی پلش پناہ ديتے ہيں، محلوں سميت، کيونکہ يہ سارے ايک ہی تھالی کے بينگن ہيں، اتنے مہمان نواز اگر انسانيت کے ہوتے تو پاکستاني، انڈين، بنگلاديشی محنت کشوں کا خون نہ بچوڑتے وہ بھی کچھ ريالز کی خاطر، ويسے تو انکے دل عام ہم جيسے انسانوں کيلیے سخت ترين ہوتے ہيں، پھر ہمارے حکمرانوں کيلیے اتنا پيار کيوں؟ يہ کيسا دوستانہ ہے!
اسلام علیکم! نہ صرف بیک وقت بلکہ خالصتاً ملائیت و آمریت کی پیداوار اور سرمایہ داروں کے ٹولے و تاجروں کے جمگھٹے پر مشتمل ن لیگ قائم کروانے والا ضیاءالحق، ملک کو ایک بار پھر تڑوانے کی خواہش رکھنے والے لسانیت پسند، اور سلمان رشدی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جو بھی قانون کو پامال کرے یا جس پر قانون کی پامالی کا الزام عائد ہو اسے ہر صورت میں ’اہلاً و سہلاً‘ کا ہی سامنا کرنا پڑے۔ شکریہ۔
سعودی عرب ميں ايک بہترين قانون نافذ ہے۔ يہاں موجود امن دنيا کے ليے مثالی ہے۔ کسی مجرم کی سفارش کوئی اور تو کيا والد بھی نہيں کرتا۔ کئی ايک مثاليں ايسی بھی ملتی ہيں کہ باپ خود بيٹے کو سزا دلواتا ہے۔ سعودی عرب ميں کی جانے والی مہمان نوازی ان سياست دانوں کے ليے ہوتی آئی ہے جنہيں ان کے اپنے ملکوں ميں سياسی اقربا پروری اور سياسی دشمنی کا خطرہ ہوتاہے۔ نواز اور مشرف دو دشمنوں کو مہمان بنانا ايک بہترين نمونہ ہے مہمان نوازي کا۔۔
ديار ’غير‘ ميں تيرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو ميری وحشتوں کا ساتھی ہو
ميں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو وہ مجھ سے بولے
گلی گلی ميری رسوا ئيوں کا ساتھی ہو
سعودی بادشاہ زندہ باد
نواز شريف زندہ باد
آصف زرداری زندہ باد
پرويز مشرف زندہ باد
افتخار چوہدری زندہ باد
پاکستان کا خدا حافظ
پاکستان تے مٹی پاؤ
وسعت اللہ صاحب، آپ سے ملنے کی خواہش تب بھی پوری نہ ہوئی جب آپ کشمیر آئے۔۔۔خیر، شائد کبھی وہ دن ضرور آئے۔
آپکی تحریریں بے انتہا پسند ہیں اور کوشش رہتی ہے کہ کوئی پڑھنے سے نہ چھوٹے چاہے آپکی آراء سے اختلاف ہی رہے اور بسااوقات تو پرانی ہی مل جائے تو چاٹ جاتے ہیں۔’اہلا وسہلا‘ تو مختصر لگی حالانکہ لگتا تھا کہ بہت زیادہ معلوماتی ہوگی۔
سعودی عرب نے اگر ان سیاستدانوں کو پناہ دی ہے تو سعودی حکمرانوں کو خطاوار گرداننے کی بجائے انہیں انصاف پسند کہنا بہتر رہتا۔اگر انہیں یہ یقین ہوتا کہ نواز شریف یا اب مشرف کو انکے ملک پاکستان میں انتقام گیری کا نشانہ نہ بنایا جائے تو شائد وہ انہیں پناہ نہ دیتے ۔ دراصل پاکستان میں سیاسی انتقام گیری وہاں کی سیاست کا جزء لاینفک ہے۔ عیدی امین کا معاملہ الگ ہے۔
اسلام عليکم، جناب اب تو سعودی عرب ميں بھی الٹی گنگا بہنے لگي۔۔۔.پہلی بار ايسا ديکھنے ميں آيا، جو آدمی کل تک اپنی بہادری کے نعرے لگاتا تھا اور کہتا تھا کہ وہ دوسروں کی طرح بھاگ کر نہیں جائے گا آج وہی شخص اپنے ليے جيل سے بچنے کے ليے بھيک مانگنے سعودی عرب بھاگ رہا ہے۔ ليکن کہتے ہیں کہ ’بکرے کی ماں کب تک خير منائےگي‘، ايک نہ ايک دن تو چھری کے نيچے آنا ہی پڑے گا۔ اب ديکنھا يہ کہ بندا کب تک بھاگتا رہےگا۔
جناب يہ تو بتائیے کہ اگر ان ايک ہی تھالی کے چٹے بٹّوں کو پناہ نہ دی گئی ہوتی تو کيا ہوتا؟ ہماری سياسی قيادت ميں وہ صلاحیت نہيں کہ ملک کو سنبھال سکيں۔
ديکھ کے حالت تيری اے پاک ملّت کے مکيں
خوں کے آنسو رو ديا اور دل بيچارہ کيا کرے؟
سعودی شاہوں کی فياضی کےکيا کہنے، پچاس کي دہائي ميں وقت کي گراں ترين سياسي رشوت کي کوشش کا شرف بھي رکھتے ہیں۔۔۔ وکی پیڈیا کے مطابق والئي بريمي شيخ زائد بن سلطان النہيان نے بيس ملين امريکي ڈالر کے عوض بڑے بھائي شيخ شخبوت حاکم ابوظبي سے غداري کر کےعلاقہ سعوديوں کے حوالے کرنے سے انکار کر ديا تھا۔ يہ قصہ تيل کي دريافت سے قبل کا ہے جب حکمران خاندان مفلسی کے عالم ميں کھجوروں کے باغات اور زمين دوز پاني کےمحصول پر گزراوقات کرتا تھا۔ قدرت نے ان کے صبر کا اجر ديا۔ تيل دريافت ہوا اور انہيں عرب کےمتمول اور معزز ترين حکمرانوں کا مقام حاصل ہوا۔۔۔
پس ثابت ہوا کہ دنیا بھر میں حکمران ظلم کرتے ہوئے اس لیے نہیں جھجکتے کیونکہ سعودیہ عرب میں پناہ کا دروازہ کھلا ہوتا ہے۔ اگر یہ دروازہ نہ ہو تو شاید دنیا بھر میں ظالم حکمران ظلم کرتے ہوئے کچھ اپنے مستقبل کا بھی سوچ لیں۔ ویسے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ایران کے بادشاہ کو سعودیہ عرب میں پناہ کیوں نہیں ملی؟
مشرف بااسلام ہونا اسی کو تو کہتے ہيں۔۔۔
ايک مثبت پہلو يہ ہے کہ کم از کم ان کا رخ تو اصلی کعبے کی طرف ہے ورنہ ان جيسے بہت سارے لوگوں کا کعبہ يا کليسا تو مغربی ممالک ميں ہے۔
ہم تو انہی بادشاہوں اور امرا کی وجہ سے آج پوری دنیا سے پیچھے ہیں۔۔۔
واہ وسعت صاحب واہ
سعوديوں پر آسانی سے الزام لگا ديا مگر لندن کا نام لينے سے آپ نے احتياط سے کام ليا کيوں؟
کیا مشرف صاحب کو سعودیہ میں پناہ مل گئی وسعت صاحب؟ آپ نے تو پہلے ہی فیصلہ سنا دیا!!
سعودی بادشاہت اور تيسری دنيا کی آمريت اور شخصی جمہوريت ايک ہی سکے کے دو رخ ہیں، لہذا مشرف کے لیے ممکنہ سعودی پناہ غير متوقع نہیں۔۔۔
وسعت اللہ خان صاحب، سعودی عرب کے احسانات اتنے ہیں کہ بلاگ پڑھنے ميں دلچسپی نہيں رہي، ويسے اگر يہی بلاگ مغرب کے بارے ميں ہو جائے تو کيا خيال ہے؟ آپ کی درجہ بالآ لسٹ ميں ہزاروں نام شامل کرنے ہونگے۔
ہماری علاقائی زبان میں محاورہ ہے مجھی مجھی نی آں بہناں ہونی آن (بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں)
اِسی طرح ظالم ظالموں کے بھائی ہوتے ہیں۔
وسعت صاحب آزاد خيال آدمی کے لیے سعودی عرب ميں رہنا بھی ايک سزا سے کم نہيں، جہاں اتنی مذہبی پابندياں اور ہر وقت اسلامی سزاؤں کا خوف۔۔۔ اس سے تو مغرب کی جيلیں بہتر ہوں گیں۔ ويسے بھی اپنے کلچر اور لائف سٹائل سے ہٹ کے زندگی گزارنا ايک سزا ہے۔ تو اگر مشرف کو سعوديہ پناہ ديتا ہے تو نواز گروپ کو فکر کی ضرورت نہیں کيونکہ سمجھ لیں انہیں عمر قيد ہوگئی۔۔۔
وُسعت بھائی آپ کے بلاگوں سے بہُت کُچھ سيکھا ہے اور جو حقيقت آج آپ نے لِکھی ہے وُہ بہُت دفعہ ميرے دِماغ ميں بھی آئی تھی اور يہ سوچ کر بہُت دُکھی بھی ہوتی رہی کہ کيا عام لوگوں کی ہی قِسمت ميں ہميشہ تکليفيں رہ گئی ہيں۔۔۔ بڑے لوگو ں کو سہُولتوں بھری زِندگی مِلتی ہے اور جب تھوڑی پريشانی کی جھلک نظر آتی ہے تو دُوسرے بڑے فوری اُن کی مدد کو آتے ہيں کہ کہيں بے چارے کِسی تکليف کا شِکار نہ ہو جائیں۔۔۔ تو پليز،گھبرائيں نہيں ہم ہيں ناں ميزبانی اور دِل پشوری کو ليکِن کِسی عام اِنسان کی شُنوائی وہاں بھی نہيں ہوتی کہ يہی تو فرق ہوتا ہے عوام اور خواص کا۔۔۔ واہ جی بڑے لوگوں کی بڑی باتیں نو سو چُوہے بھی کھا لیے اور اب حج پر بھی چل دیے کيا بات ہے جی آپ کي؟
امريکہ اور برطانيہ کے حکمران اپنے قوانين کی پابندی کے ليے اپنے عوام اور ان کے نمائندوں کے سامنے جوابدہ ہيں اور کوئی فرد واحد لامحدود اختیارات نہيں رکھتا لہٰذا جب کبھی اپنے پرانے خدمت گزاروں کی مدد کرنے کا سوال آتا ہے جنہوں نے اپنے ان آقاؤں کے احکام کی بجا آوری ميں اپنے ملکی قانون اور اخلاقی اقدار کو پامال کرنے ميں ان آقاؤں کی توقعات سے بڑھ کر خدمت کی ہو تو اس کا حل يہ ہے کہ يہ کام اپنے دوسرے خدمت گزار کے ذمہ لگا ديا جائے۔ سعودی عرب اور اس کے حکمران يہ خدمت اپنا فرض سمجھ کر بجا لاتے ہيں۔ اس معاملے ميں کسی اصول يا قانون يا اخلاق يا منطق کا کوئی دخل نہيں ہے۔ نوکری نوکری ہوتی ہے اور آقا آقا ہوتا ہے۔
وسعت اللہ خان صاحب جس دليری اور بےباکی سے آپ نے يہ سب لکھا ہے اللہ کرے يہ دليری ہماری قوم کو بھی ميسر آئے۔ ورنہ تو ہمارے پاس صرف کڑنے اور جلنے کے علاوہ کچھ نہيں ہے۔ کہنے کو تو اور بھی بہت دل کر رہا ہے مگر شايد اسے يہاں جگہ نا مل سکے۔ اللہ کرے وہ دن جلد آئے جب قوم خود ان ظالم حکمرانوں کا گريبان پکڑ کر ان سے حساب لے سکے۔