'ہائے عروج کا وہ زمانہ۔۔۔'
'آپ نے قلعہ بالا حصار کے بارے میں سنا ہوگا۔ یہ جو سامنے والی عمارت ہے، یہ ہے قلعہ بالا حصار، جو چند سو سال پہلے مغلوں کی دورِ حکرانی میں تعمیر ہوا تھا۔ ہاں یہ ہم جہاں سے گزر رہے ہیں یہ پشاور کا پوش علاقہ حیات آباد ہے۔ یہ دیکھیں سینکڑوں سال پرانا قصہ خوانی اور اس سے متصل سب سے بڑا کاروباری مرکز خیبر بازار۔ جس بازار میں اب ہم داخل ہونے والے ہیں یہ شہر کا مقبول ترین بازار صدر ہے۔ یہ دیکھو شہر کا سب سے بڑا ہوٹل پرل کانٹیننٹل۔۔۔'
یہ ساری باتیں پانچ سال پہلے کی ہیں جب میں پشاور میں بالکل نیا نیا وارد ہوا تھا اور باہر سے آئے ہوئے اپنے دوستوں کو شہر کی سیر کراتے ہوئے ان مقامات کا کچھ اسی انداز سے تعارف کراتا تھا۔
لیکن اب پانچ سال بیت چکے ہیں۔ پرسوں اپنے بہنوئی کو گاڑی میں بٹھا کر ان سے اِنہی مقامات کا تعارف کچھ یوں کرایا۔۔۔ 'یہ دیکھو شہر کا واحد بڑا ہوٹل پرل کانٹیننٹل ہوٹل، یہ وہی جگہ ہے جہاں پر چند مہینے قبل بم دھماکہ ہوا تھا۔ اب یہ ہوٹل بند ہے اور ہوٹل کے ملازمین داخلی گیٹ کے سامنے بیھٹے اپنی نوکریوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔۔۔'
'یہ قصہ خوانی بازار ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں پیپل منڈی میں دھماکہ ہوا تھا جس میں ایک سو بیس شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔' گاڑی روک کر میں نے کہا 'یہ خیبر بازار ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں ایک ماہ پہلے بارود سے بھری گاڑی لوکل بس کے ساتھ ٹکرائی تھی۔ پچاس سے زائد شہریوں کو زندگی موت کی گھاٹی میں اتارا گیا تھا۔۔۔'
'ہم ابھی ابھی جس علاقے میں داخل ہوئے ہیں یہ شہر کا پوش مگر سب سے 'غیر محفوظ' ایریا حیات آباد ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو یہاں سے افغانستان کے نامزد سفیر عبدالخالق فراہی اور ایران کے بزنس اتاشی اغواء ہوئے تھے اور اس قسم کی زیادہ تر وارداتیں یہاں ہی ہوتی ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں میں دو سال پہلے تک بلا خوف و خطر لانگ ڈرائیو کرنے آتا تھا اور اب اتنا ڈر لگتا ہے کہ بہت عرصے بعد آپ ہی کی وجہ سے آنا پڑا ہے۔۔۔'
اپنے بہنوئی کو یہ سب کچھ بتاتے ہوئے مجھے نہ جانے اچانک ایک دھچکا سا لگا۔ اوہو، پانچ سالوں میں اتنی بڑی تبدیلی، اتنی بڑی کہ 'دہشت گردی کی جنگ' نے شہر کی تاریخی یادگاروں اور مشہور مقامات سے ان کی پہچان چھین لی ہے اور اب انکی شناخت بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ہلاکتوں کی نسبت سے ہوتی ہے۔ بقول جوش صاحب، 'ہائے وہ عروج کا زمانہ، ہائے زوال کے یہ دن۔۔۔'
تبصرےتبصرہ کریں
آپ نے بالکل صحیح فرمیا۔ سوات کو بھی برصغیر کا سوٹزرلینڈ کہا جاتا تھا، وہ بھی اپنی پہچان کھو گیا۔ اب گوگل میں اگر پشاور یا سوات کے متعلق معلومات حاصل کرنا ہوں تو صرف دہشت گردی ہی دکھائی دیتی ہے۔ یہ سب اپنوں کا کیا دھرا ہے۔ اپنے ہی قصوروار ہیں۔۔۔
مکافاتِ عمل کہہ لیں یا تاریخ کی ایک زندہ حقیقت کہہ لیں کہ ہر عروج کو بلآخر زوال ہوتا ہے۔
’چمکے تو ہے سورج کی طرح روپ تمہارا
لیکن یہ سمجھ رکھیو کہ سورج بھی ڈھلے ہے۔۔۔‘
لگتا ہے کوئی بددعا ہمارے تعاقب ميں ہے۔
زندگی میں دو ہی شہر ہیں جنہوں نے مجھے کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ایک میرا آبائی شہر اور ایک شہر پشاور۔ زندگی کے بہت حسین لمحے اس شہر کی دین ہے۔ فراز نے پشاور کے بارے میں کہا تھا۔
روم کا حسن بہت دامن دل کھینچتا ہے
اے مرے شہر پشاور تیری یاد آئی بہت
مگر اب اس شہر میں جانا ہو تو ڈر لگتا ہے۔ جس شہر کی ہوائیں امن کی خوشبوؤں سے معمور تھیں آج ان میں بارود کی بو پھیل چکی ہے۔
جب يہی دہشتگرد افغانستان کی اينٹ سے اينٹ بجا رہے تھے تب تو پاکستانی ميڈيا اور عوام کو خلافت راشدہ کا دور ياد آرہا تھا۔ اب جب اپنا وہی حال ہوا تو۔۔۔۔
آپ کی اس پوسٹ نے دل اداس کر دیا جی۔ دکھ ہوتا ہے جی پاکستان کے حالات پر۔ لیکن جب ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے تو حالات ایسے ہی ہو جاتے ہیں۔
جناب بلاشبہ قوموں پر زوال آیا کرتے ہیں اور اکثر علاقوں کو ایسے خون خرابے کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ آپ عراق خصوصاً بغداد کی صورتحال دیکھ لیں تو کبھی وہ شہر دنیا میں ترقی اور خوشحالی کا مرکز تھا مگر اب وہاں کھنڈرات اور تباہی باقی رہ گئی ہے۔ آپ کو وہ وقت بھی یاد ہو گا جب بھارتی فوج نے امرتسر جیسے تاریخی شہر میں گولڈن ٹیمپل میں مظالم کی انتہا کر دی تھی اور گولڈن ٹیمپل کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ ایسا اکثر قوموں کے ساتھ ہوتا ہے اور ہمارے ساتھ بھی بدقسمتی سے ایسا ہو رہا ہے۔ مگر آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ نے چاہا تو یہ سلسلہ اب زیادہ دیر جاری نہیں رہے گا۔ ویسے یہ دہشتگردی اپنوں کی دین نہیں بلکہ افغانستان پر امریکی قبضے اور بھارتی امداد کا شاخسانہ ہے۔ جس دن امریکہ افغانستان سے نکلے گا دہشتگردی کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ اب بھی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ سوات کو اس کی کھوئی ہوئی شناخت واپس مل گئی ہے اور صرف پشاور نہیں دوسرے شہر بھی دہشتگردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ لہٰذا پوری قوم کو مل کر دہشتگردی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
ان خودکش حملوں کا سدباب کرنے کے لیے بنيادی وجہ پر غور کرنا ضروری ہے۔ کہيں نوجوانوں ميں جہالت، نا انصافی، غربت، بےروزگاری تو اس کا سبب نہيں؟