یروشلم میں پیار
کل رات ایک محفل میں کچھ ایسے آزاد خیال یہودیوں سے ملاقات ہوئی جو فلسطینوں کے ساتھ امن، پیار و محبت چاہتے ہیں، پر صرف سیاسی لحاظ سے نہیں بلکہ جنسی طور پر بھی۔
جگہ تھی مشرقی یروشلم کو مغربی یروشلم سے جوڑنے والی ایک سڑک پر واقع بار جہاں پیر کی شام ہم جنس پرست نوجوانوں کی ہفتہ وار محفل جمتی ہے۔
شوشان اسٹریٹ پر واقع یہ بار دنیا کے اس مذہبی شہر میں ایک الگ ہی جگہ ہے۔ یہاں مغربی یروشلم کے یہودی لڑکے لڑکیوں اور مشرقی یروشلم کے فلسطینی نوجوانوں کا ملاپ ہوتا ہے۔
ہکاٹزے نامی اس بار میں کچھ لڑکے لڑکیوں کا میک اپ کر کے آئے ہوئے تھے تو کچھ لڑکیاں لڑکوں کا روپ اپنائے ہوئے تھیں۔ آپس میں ہنسی مذاق ہو رہا تھا، موج مستی اور گانا بجانا ہو رہا تھا۔
یوں تو اسرائیل میں ہم جنس پرست کمیونٹی خاصی متحرک ہے لیکن یروشلم جیسی مقدس جگہ میں ہم جنس پستوں کو کٹر قدامت پسند یہودی لابی سے سخت مخالفت کا سامنا رہتا ہے۔ عرب کمیونٹی میں تو ہم جنس پرستی اور بھی بڑا مسئلہ ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہودیوں اور مسلمانوں میں ویسے کتنے بھی اختلافات ہوں لیکن ہم جنس پرستی کے معاملے پر دونوں جانب کے مذہبی رہنماؤں کا رویہ ایک ہی جیسا ہے۔
اس بار میں نوجوانوں سے مل کر لگا کہ سیاسی، قومی اور مذہبی اختلافات سے قطع نظر، دل کے معاملات کے آگے کبھی کبھی انسان بلکل مجبور بھی ہو جاتا ہے۔ اور پھر شاید ایسے ہی نفرتوں کے سمندر کے بیچ پیار کے جزیرے ابھرنے لگتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
سب لوگ ايک جيسے نہيں ہوتے۔۔۔
آپ کے سفر نامے سے لگتا ہے کہ آپ لوگوں ميں منفی سوچ بڑھا رہے ہيں۔۔۔
میرے خیال میں یروشلم میں ان بارز سے زیادہ اہم کئی کہانیاں ہوں گی کوور کرنے کے لیے۔۔۔
پہترين بات کی ہے محبت کی۔۔۔
‘سیاست نے جو کھینچی ہیں حدیں قائم رہیں بے شک
دلوں کی حدِ فاضل کو مٹا دینے کا وقت آیا‘
ارے صاحب کيوں مٹی پليد کرنے پہ تلے ہو۔۔۔ بےشک پيار نفرتوں کو دور کرنے ميں اہم رول ادا کرتا ہے، مگر ايسا پيار؟ فطرت سے الٹ چيز۔۔۔ جہاں تک ميرا خيال ہے پيار کے زمرے ميں نہيں آتی۔۔۔
سمجھ نہيں آتی ميری تو کہ پيار ومحبت ہم جنس پرستی پر آکر ختم ہو جاتاہے۔۔۔ وہ بھی مظلوميت تلے۔۔۔ اور بھي غم ہیں زمانے ميں جنسي پيار ومحبت کے سوا۔۔۔ خير حوصلے پکڑيں اور تنقيد کے ليے تيار ہو جائیں۔۔۔
پيار ايک ايسی چيز ہے جس کی نہ تو کوئی سرحد ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی مذہب اور بسا اوقات يہ جنس کی بھی پرواہ نہيں کرتا جيسا کہ آپ نے ہم جنس پرستی کا ذکر کيا جو کہ ميرے خيال ميں دنيا کے ہر خطے ميں موجود ہے بلکہ پاکستان ميں بھی ضرورت سے زيادہ عام ہے اور کچھ نيم ملا اس چکر ميں بدنام بھی ہيں۔ ليکن کيا ہی اچھا ہو کہ دنيا کے لوگ اب اس جديد دور ميں نظرياتی اور مذہبی دشمنيوں کو بھول کر صرف پيار کی لڑائی لڑيں تاکہ ہير رانجھا، سسی پنوں، شيريں فرہاد اور مرزا صاحباں کے قصے بنتے رہيں۔
لاتعداد لعنت ہے ان لوگوں پر جو آپس میں میل ملاپ اور دوستی کے نام پر بےحیائی کو فروغ دیتے ہیں۔ ان ہی جیسے لعنت زدہ لوگ دوسرے بے گناہوں کو ، ایڈز اور اس جیسی لاعلاج بیماریوں میں مبتلا کرتے ہیں۔