حاجی عدیل کو کیا سوجھی
عوامی نینشل پارٹی کے سنیئر رہنما سنیٹر حاجی عدیل بیچارے کو کیا پڑی تھی کہ وہ کرسمس کے موقع پر اقلیتوں کی دل جیتنے کے لیے یہ کہے کہ ملک کا نام' اسلامی نہیں بلکہ عوامی جمہوریہ پاکستان' ہونا چاہیئے۔ ظاہر ہے کہ اے این پی کی مخالف جماعتیں تو ایسے بیانات کی تاک میں ویسے ہی بیٹھی رہتی ہیں مگر حاجی عدیل بیچارے پر افتاد اس وقت پڑی جب مخالف جماعتوں کے شوروغوغا سے قبل ہی عوامی نشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات زاہد خان نے یہ کہہ کر اپنے سینئر رہنما کا سیاسی قد و کاٹھ کم کردیا کہ 'یہ پارٹی کی نہیں حاجی عدیل کی ذاتی رائے ہے اور انیس تہتر کے آئین میں جب اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھاگیا تو اس پر خان عبدالولی خان نے بھی دستخط کیئے تھے۔'
اگلے دن حاجی عدیل بھی سیخ پا ہوئے اور جواباً کہا کہ' زاہد خان اپنا منشور پڑھ لیں اور اگر انہیں انگریزی نہیں آتی تو کسی سے ترجمہ کرالیں جس میں یہی بات لکھی گئی ہے جو میں نے کہی ہے۔'
پھر ایک اخباری خبر آئی کہ اسفند یار ولی خان کی سربراہی میں اے این پی کے ہونے والے ایک اجلاس میں بھی حاجی عدیل سے وضاحت طلب کی جائے گی اور اگر وہ پارٹی کو مطمئن نہ کرسکے تو انہیں شوکاز نوٹس بھی جاری کیا جاسکتا ہے۔
ابھی یہ اختلافی بیانات جاری تھے کہ اتفاقاً ولی خان کی'باچا خان اور خدائی خدمتگار تحریک' کی کتاب میرے ہاتھ لگی۔اس میں ولی خان بھٹو کی حکومت کی معزولی کے بعد جنرل ضیاء الحق کے اعلان کردہ انتخابات کے بارے میں متحدہ قومی محاذ میں شامل جماعتوں کے درمیان ممکنہ انتخابی اتحاد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ' ذوالفقار بھٹو کو ہٹانے کے لیے دائیں اور بائیں بازو کی تمام جماعتوں کا اکھٹا ہونا ضروری تھا اور اب چونکہ انتخابات ہونے جارہے ہیں لہذا انتخابی اتحاد نظریات کی بنیاد پر ہوں گے۔ جماعت اسلامی فرقہ پرست اور ہم غیر فرقہ پرست جماعت ہیں لہذا ہمارا اتحاد نہیں ہوسکتا۔'
مجھے حاجی عدیل کی بات بھی درست معلوم ہو رہی ہے کہ انہوں نے جو کہا وہ اے این کے منشور کی روشنی میں کہا، زاہد خان کی بات میں بھی وزن ہے کہ ان کے سیاسی روح رواں خان عبدالولی خان نے دستخط کرکے ملک نام اسلامی جمہوری پاکستان تسلیم کرلیا تھا۔ اب مجھے ولی خان کی سمجھ نہیں آتی کہ وہ ملک کو اسلامی ریاست تسلیم کرتے ہوئے آئین پر دستخط بھی کرتے ہیں اور پھر چند سال بعد جماعت اسلامی کو فرقہ پرست اور خود کو غیر فرقہ پرست سمجھ کر انتخابی اتحاد سے بھی گریز کرتے ہیں۔
شاید عوامی نیشنل پارٹی اور بائیں بازو کی دیگرجماعتیں اندر سے تو سیکولر ہیں لیکن باہر رائٹ ونگ اسٹیبلشمنٹ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں یر غمال۔
لگتا ہے باسٹھ سال تک ملحدین، غدار، کیمونسٹ، روس ، انڈیا اور افغانستان کے ایجنٹوں جیسے القابات و اقدامات نے ان جماعتوں کی سیاسی کیمسٹری ایسی بدل دی ہے کہ وہ جارحانہ نہیں بلکہ مدافعانہ سیکولر پالیٹکس کے گرداب میں کچھ اس طرح سے پھنس گئی ہیں کہ بقول شاعر' نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔'
تبصرےتبصرہ کریں
کاکڑ صاحب!يہ اے اين پی ہی نہيں ساری سياسی جماعتوں کا الميہ ہے کہ وہ جب اقتدار سے باہر ہوتی ہيں تو کچھ الگ نوعيت کا راگ الاپتی ہيں جب اقتدار مل جا ئے تو سب کچھ بھول بھال جاتی ہيں۔ يہی کچھ اے اين پی کے ساتھ ہورہا ہے۔خود پارٹی رہ نما اسفند يار ولی کہہ چکے ہيں کہ سياست اور مصلحت ميں محض تھوڑا سا ہی فرق ہوتا ہے جسے بے شرمی سے تعبیر کيا جاسکتا ہے۔ ميرے خيال ميں حاجی عديل صاحب نے يہ بيان پرانے دنوں کی يادوں ميں ديا ہوگا يا وہ فراموش کرگئے کہ وہ پارٹی کی جانب سے ايوان بالا کے رکن ہيں۔ ويسے انہوں نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ اگر بھارت ميں بھی آئين ميں درج ہو کہ صدر اور وزيراعظم کوئی غير مسلم نہيں بن سکتا تو کيا وہاں ابوالکلام، ذاکر حسين سيد اور ابوالسلام صدور بن سکتے تھے؟واقعی يہ ان دنوں کا موقف ہے جب پارٹی سيکيولر نظريات کی کٹر حامی تھی اور بھارتی سفير باچا خان اور ولی خان سے آشير باد لينے ولی باغ چار سدہ کے پھيرے لگايا کرتے تھے اور يہ لوگ بھارتی تقريبات ميں شرکت کے لئيے دہلی جايا کرتے تھے جبکہ فريق مخالف ان کو ’دہرئيے‘ و ’کافر‘ قرار ديتے ہوئے دہلی کے لال قلعہ پر ترنگے کے بجائے سبز ہلالی پرچم لہرانے کی بات کرتا تھے۔ ويسے اے اين پی کی انہی پاليسيوں کی وجہ سے پارٹی چوں چوں کا مربہ اور آدھا تيتر اور آدھا بٹير کی عملی مثال بنی ہوئی ہے۔ آج اگر اقتدار کے ليے انکو قاضی حسين کے ساتھ بھی بيٹھنا پڑے تو يہ باہم شير و شکر ہوکر حلوہ مانڈے ميں بھی شريک ہونے سے دريغ نہيں کريں گے۔
شاید اے این پی کے امام غائب حضرت اسفندیار صاحب، حاجی عدیل کے اس زیر لب تقاضے سے نالاں ہیں کہ امام صاحب غیبیت سے ظہور فرمائیں۔ اسی واسطے حاجی صاحب کی گوشمالی کا منصوبہ تیار ہوا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی بھی ایسی ہی قوم پرست جماعت ہے جیسی فضل الرحمان کی جے یو آئی مذہبی جماعت ہےـ
کاکڑ صاحب اس وقت پاکستان کا ہر سمجھدار فرد پريشان ہے کہ ملک ميں افراتفری ،غيريقينی صورت حال،بدنظمی اور خودکش حملوں کو کيسے ختم کيا جائے جس کی بنيادی وجہ کا سب کو علم ہے يعنی فرقہ پرستی اور عليدگي پسند تنظيميں يعنی ملک ہزاروں نظريات کے گروہوں ميں بٹ چکا ہے اور ہر نظريہ کا فرد اپنے آپ کو سچا اور دوسرے کو کافر کہتا ہے۔اب اتنے اسلامی فرقوں کی موجودگی ميں جب ہر فرقہ اپنے آپ کو جنتی اور دوسرے کو مشرک کہے تو پاکستان کس فرقے کا اسلامی جمہوريہ ہوگا؟تو اس سے بہتر نہيں کہ اس کو عوامی جمہوريہ بناکر صرف اقتصادی و معاشی پيکيج پيش کرنے والی جماعتوں کو اليکشن ميں حصہ لينے کی اجازت دی جائے اور مذہبی جماعتوں کو کالعدم قرار دے کر نظريات کو لوگوں کے ذاتی مسۂلے تک رکھا جائے تاکہ لوگوں کی بذريعہ سرکاری ميڈيا تربيت ہو کہ ايک دوسرے کے نظريات ميں مداخلت ملک کے ليۓ نقصاندہ ہے۔ حاجی عديل کی طرح باقی سياستدانوں کو بھی اس مسۂلے کا حل ڈھونڈنا چاہيے کيونکہ صرف يہ کہ دينے سے کہ يہ سب کچھ امريکہ کی وجہ سے ہوا بات نہيں بنتی کيونکہ امريکہ کے ادھر آنے سے پہل بھی ہمارے حالات يہ ہی تھے نيز امريکہ کا اثر بھارت چين اور کوريا پہ کيوں نہيں پڑتا کيونکہ وہاں عوام ايک ہيں يعنی پہلے عوامی جمہوريہ بعد ميں سب کچھ۔
کاکڑ صاحب بہت اعلی لکھا يھی ھماری پارٹيوں کا حال ہے جيسے ھم ويسے وہ پرکسي نے تو سچ کہنے کی ہمت کی
مذہب پرست ہو یا قوم پرست آتا تو دونوں میں پرست ہی ھے نا؟