| بلاگز | اگلا بلاگ >>

سیف بنوی کی یاد میں

حسن مجتییٰ | 2010-01-08 ، 8:55

میں نے بلھے شاہ نہیں دیکھا لیکن میں نے سیف بنوی کو دیکھا تھا۔ اسی لیے مجھے یقین ہے وہ نہیں مرا بلکہ اسکی قبر میں کوئي اور پڑا ہے۔

ا س نے اپنی روح کو آزاد اور پرکیف رکھنے کے لیے اپنے جسم کے ساتھ جو کچھ کیا تھا دیر یا سویر وہی ہونا تھا جو ہم سب کے ساتھ ہونا ہے:
'اڑ جآئے گا ہنس اکیلا
جگ درشن کا میلا'
اسے پتہ تھا کہ موت فقط درد میں مرجانے کا نام نہیں پر ایک مکتی کا جشن بھی ہے۔ اسی لیے تو اس نے وصیت کی تھی کہ اسے شاہ لطیف بھٹائي کے فقیروں کے عارفانہ کلام اور شاہ، سچل اور شیخ ایاز کی شاعری کی گونج میں ناچتے گاتے دھوم مچاتے دفن کیا جائے۔ اور اسکے آخری سفر میں ایسا ہی ہوا یہ صرف سیف بنوی ہی کرکے جاسکتا تھا ۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ موت کا دوسرا نام وصال بھی ہے۔ کئي صوفی اسے 'برقعہ بدل جانا' کہتے ہیں۔
'موت میٹھی چاندنی
شبمنم سے بھیگے جسم پر پھولوں کی چادر اوڑھ کر
خوابوں میں بچھڑے فاصلوں کے روبرو آنے کا نام۔'
آپ شاید ہی سیف بنوی کو جانتے ہوں۔ ایک شاعر۔ سدا کا حسن پرست ۔ بلا کا پینے والا۔ وہ یگ تک یاد رکھے جانے اور پلوں میں جینے مرنے والا آدمی تھا۔ وہ کہتا تھا اس کی طول العمری کا راز چرس نوشی ہے۔ وہ ایک جینوئین بوہیمین دانشور تھا۔ ایک ایسا شخص، اگر آپ اہل نظر اور اہل دل ہیں تو وہ پہلی ہی ملاقات میں آپ پر عاشق ہوجائے گا یا آپ اس پر عاشق ہوجائيں گے سیف کے آگے جسن' عمر' مذہب` ذات پات` نظریے کی کوئي بندش نہیں تھی۔ وہ میرا دلبر دوست تھا۔ ابھیچند کے شہر کا یہ شخص اپنے عشق میں سرمد تھا۔
وہ کہتا تھا کہ اگر کوئي ادھار پر ٹرین بھی دے تو بابو سمیت خرید کرے گا۔ اس نے دوستوں سے بھری ایک ٹرین چھوڑی ہے جسکا کوئي جواب نہیں۔ وہ صحافی تھا، انقلابی آدرشی تھا۔ سدا کا سیلانی تھا۔ کسی بھی سفر کے لیے ہر وقت تیار و کامران۔ وہ بھی انور پیرزادو کی طرح شاہ لطیف کے تمام کلام یعنی شاہ جو رسالو کا یاد حافظ تھا۔ وہ ساٹھ اور ستر کے سندھ اور پاکستان میں سیاسی اور ادبی تحریک کی چلتی پھرتی تاریخ اور اسکا اہم کردار بھی تھا۔ سب سے بڑی بات باہر بائو صاب اندر ملامتی صوفی۔ قحط الرجال وچھنال پاکستان سے ایک بہت ہی بڑا آدمی کوچ کر گيا ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 9:21 2010-01-08 ,سجاد الحسنین، حیدرآباد بھارت :

    مجتبی صاحب يہ پاکستان کو چھنال کيوں لکھا آپ نے ؟؟؟

  • 2. 9:53 2010-01-08 ,عرفان مہدی :

    جناب کون تھے یہ؟

  • 3. 10:40 2010-01-08 ,علی گل ، سڈنی :

    حسن مجتبی درويشوں کی زندگی پر بلاگ لکھنے کا بے حد شکريہ۔جب انسان صرف انسان سے بحثيت انسان محبت کرے گا تو خدا بھی اس سے محبت کرے گا اگر کوئی بے تحاشا عبادت کرے اور حقوق العباد کي پرواہ نہ کرے تو خدا بھی اس کی پرواہ نہيں کرتا۔درويش کے ليۓ زندگی اور موت دونوں تحفے ہی ہوتے ہيں چاہے اسے منصور حلاج کی طرح سولی پہ لٹکا ديا جائے يا بلھے شاہ کو شدائی قرار ديا جائے۔اگر ان تمام درويشوں کا کلام سمجھ اور غير جانبداری سے پڑھا جائے تو زندگی کو سمجھنے ميں بہت آسانی ہوجاتی ہے۔

  • 4. 11:23 2010-01-08 ,نجیب الرحمان ، لاہور, :

    ‘بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور

  • 5. 12:44 2010-01-08 ,گل سولنگی :

    سندہ کی سرزمین کو سیف بنوی جیسی شخصت
    پر ہمشیہ ناز و فخر ہے۔
    جی ایم سید حیدر بخش جتوئي جام ساقی فاضل راہو سرویچ سجاولی محمد خان مجیدی اور انور پیرزادو جسی شخصیات
    کا تسلسل سیف بنوی تھے۔
    حسن بھائي،ـ آپ نے
    سیف پر لکھ کر سندہ کے عظیم ترقی پسند شعور کو سہارا دیا ہے۔حسن بھائي،سندہ آپ کو مس کرتا ہے۔

  • 6. 13:57 2010-01-08 ,ڈاکٹر الفریڈ چارلس :

    حسن بھائي!ايک بڑے عالم وفاضل شخص کی افسوسناک رحلت کے بارے ميں بتانے کا شکريہ ۔ انکی شاعری اورادبی کام زندہ رہے گا

  • 7. 16:30 2010-01-08 ,بخشن مہرانوی :

    سيف عجب آذاد مرد تھا حسن! ھم سب سيف کے سوگوار ھيں۔

  • 8. 16:55 2010-01-08 ,ڈاکٹر غلام شبیر رانا :

    بلھے شاہ اسیں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور
    ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی۔سیف بنوی کی رحلت نے ہمیں مفلس و قلاش کر دیا۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔
    جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
    کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی
    آج ہمارا معاشرہ تصنع اور منافقت کا شکار ہے۔سیف بنوی کا ظاہر اور باطن ایک تھا۔استاد محترم ڈاکٹر نثار احمد قریشی فرمایا کرتے تھے مسلسل شکست دل نے افراد کو بے حسی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔کوئی بچھڑ کے چلا جائے ملال نہیں ہوتا۔اس کا سبب یہ ہے کہ احساس زیاں دلوں سے عنقا ہو نے لگا ہے۔سیف بنوی کبھی نہیں مر سکتا وہ تو ایک دریا تھا سمندر میں اتر گیا۔
    تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے
    کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا

  • 9. 20:04 2010-01-08 ,آزاد بلوچ :

    حسن بھائي پاکستان کو چھنال لھکنا لفظ چھنال کی توہین ہے۔ ایک بلوچ کا احتجاج ریکارڈ پر رہے۔

  • 10. 20:29 2010-01-08 ,وسیم احمد :

    برائے مہربانی انکی شاعری بھی شایع کریں۔ اگرچہ اس بلاگ کے ذریعے میں انکے بارے میں جان تو گیا ہوں لیکن انکی شاعری سیف بنوی کو مزید جاننے میں مدد کرے گي۔.

  • 11. 20:44 2010-01-08 ,ثنا خان :

    جب يہ زندہ تھے تب آپکو کيوں ياد نہيں آيا لکھنا اب کيا فائدہ کبھی بندے کی زندگی ميں کيوں ہم لوگ تعريفيں نہيں کرتے ؟ عجيب بات ہے مرنے کے بعد تو ناپسنديدہ شخص بھی اپنی تعريفيں کرواہی ليتا ہے۔

  • 12. 21:22 2010-01-08 ,طغرل فرزان :

    وہ بلا كا پينے والا تھا ۔۔۔

    يہ تو مرنے كے بعد ہي پتہ جلے گا كہ
    گور پيا كوئي ہور
    ياقبر كے اندر ساتھ ميں خاطر تواضع كے ليے كچھ حضرات اور بھي ہيں۔

    اگر حسن صاحب كو اپنے خيالات كا اظہار كرنے كا حق ہے تو ميري اس چھوٹي سي اس رائے كو بھي، اصولاُ، جگہ ملني چاہيے۔
    بي بي سي بھلے سے اپنے تمام حقوق محفوظ ركھے۔

  • 13. 14:42 2010-01-09 ,رشید چانڈیو :

    بہت اچھا حسن مجتبی۔ آپ نے ایک عظیم انسان اور شاعر کو یاد کیا۔ ... جبکہ سندھی لکھاریوں اور شاعروں نے نہ کبھی اسے یاد کیا اور نہ ہی کبھی اسکی عیادت کی تھی۔...

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔