دبئی کی چمکیلی دنیا
دبئی میں چند دن گزارنے کے بعد ایک دوست نے کہا کہ ان کو اپنی گھر اور گاڑی دونوں بری لگنے لگی ہیں۔ یہی ہے یہاں کی چمکیلی دنیا۔ ریگستان کی ریت بھی سونے کے بھاؤ بیچ ڈالی۔ باقی کام پیٹرو ڈالر نے کر دکھایا۔ چند برس پہلے تک جو دشت و بیاں باں تھا آج وہاں سر سے ٹوپی گرانے والی عمارتیں کھڑی ہیں اور وہ بھی ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں۔
عالمی کساد بازاری کا اثر کہتے ہیں یہاں ہوا ہے لیکن اکثر نئے منصوبوں پر۔ جو فلک بوس عمارتیں بن گئیں سو بن گئیں یا جن پر آخری مراحل کام ہو رہا ہے سو وہ بھی جاری ہے۔ ہاں جو تعمیراتی منصوبے ابتدائی مراحل میں تھے وہ روک دیے گئے ہیں۔
دبئی کے نئے علاقوں میں بتایا گیا کہ پچھتر فیصد عمارتیں خالی پڑی ہیں۔ ہر عمارت کم از کم بیس منزلہ۔ ہوٹل صنعت میں توسیع کا اندازہ اس بات سے کریں کہ دبئی میں گزشتہ برس چار ہزار کمروں کا اضافہ ہوا تھا۔ لیکن عالمی معاشی مشکلات کی وجہ سے مہمان اتنے نہیں آ رہے۔ اس میں تیس فیصد گراوٹ آئی ہے۔ دنیا کی اونچی ترین عمارت برج الخلیفہ کا افتتاح تو ہوگیا لیکن رات کو دکھائی نہیں دیتا۔ وجہ شاید اس کا فل الحال خالی ہونا ہے۔
ایک اسلامی ریاست ہونے کے باوجود اس ریاست کی راتیں کسی مغربی شہر کی راتوں سے کم رنگین نہیں۔ یہ ریاست ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں میں اپنے ریگستان کو کیا بنا دیا اور دوسرا ہم ہیں جنہوں نے سمندر، پہاڑ، ریگستان اور دلکش جنگلات جیسی ہر نعمت ہوتے ہوئے اسے مختلف وجوہات کی وجہ سے گھنا دیا ہے۔
لیکن ذاتی افسوس سے زیادہ میرے ذہن میں یہ سوال گردش کرتے رہے کہ کیا دبئی کی دنیا کہیں مصنوعی تو نہیں؟ پینے کا پانی فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے، اکثر بجلی تیل اور کوئلے سے پیدا کی جاتی ہے، اکثر اشیاء خوردونوش بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں۔ تو ایسے میں یہ شہر کب تک چل پائے گا؟ اگر تیل کی عالمی قیمتوں میں عارضی اضافے سے اس معشت کو ایسا شدید دھچکا لگا کہ ابھی تک 'آفٹرشاکس' محسوس کیئے جا رہے ہیں۔ کل کوئی نیا بحران آیا تو اسے کون بچا سکے گا؟
تبصرےتبصرہ کریں
ارے صاحب يہ دنيا ہے يہاں ہر کوئی آج ميں جينا چاہتا ہے اور پھر رہی بات تيز رفتار ترقی کی تو بڑی بڑئ جنگيں ہويں دنيا کئی بار اجڑی اور بنی کيا ہوا زندگی اپنی رفتار سے جاری ہے۔ بے شک آج دبئی کو يا پھر کسی بھی ترقی يافتہ شہر کو شاک لگا ضرور ہے مگر حالات پلٹا کھانے لگے ہيں۔ حضرت انسان کو چين کہاں ہے۔ صاحب يہی بے چينی بے سکونی اسے ايک دن ضرور لے ڈوبے گی مگر خدشات کی بنياد پر آدمی کام کرنا چھوڑدے تو پھر گزارا کيسے ہوگا کل کو قيامت آنی ہے انسان کو حساب دينا ہے جنت اور جہنم کی بھی سبھی جانتے ہيں اس کے باوجود کام رکا ہے ؟؟؟تو بے فکر ہوجائیے اور گذارش يہ بھی ہے کہ کل کے حالات سے رلانے کی بجائے براہ کرم حوصلہ ديجيے گا جہاں وسيلے نہيں تھے وہ لالہ زار بن گئے تو پھر جہاں بھر پور وسائل ہيں فردوس بريں کيوں نہيں بن سکتے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
‘چمکے تو ہے سورج کی طرح روپ تمہارا
لیکن یہ سمجھ رکھیو کہ سورج بھی ڈھلے ہے‘
جو ملک اسلامی کہلائے اور اس کے حالات ايسے مغربی ہوں` وہ انسانوں کےپيدا کردہ بحران سے تو شايد بچ جاۓ اللہ کے غضب سے نہيں بچے گا- اللہ اس کے حکمرانوں کو ہدایت دے کيونکہ آج بھی وہ پاکستان کے حکمرانوں سے بہت بہتر ہيں جنھوں نے خدا کی دی ہوئ ہزار نعمتوں کے باوجود اپنے ملک کو تباہ کر ليا ہے- يہاں کی جو بات مجھے پسند ہے وہ يہ کہ اتنی مغربيت کے باوجود يہاں پردے کا احترام ہے جو پاکستان سے ناپيد ہوتا جا رہا ہے خاص کر بڑے شہروں ميں- بےشک اس احترام کے پيچھے ان کے حکمرانوں کی اسلام پسندی نہيں بلکہ اپنی عرب پہچان بچانے کی کوشش ہے جو يہاں کا صرف 20 فيصد ہيں-
محترم ہارون رشید صاحب، آداب عرض کے بعد مودبانہ عرض ہے کہ دبئی بارے آپ نے جن سوالات کو اٹھایا ہے ان پر دبئی حکومت کو جلد از جلد نہ صرف غور کرنا ہوگا بلکہ کوئی مثبت اور لانگ ٹرم پالیسی مرتب کرکے اس پر باقاعدہ کام کا آغاز کرنا ہوگا مبادا کہیں جلد یا بدیر کیے کرائے پر پانی نہ پھر جائے۔ جہاں تک خاکسار کی معلومات کا تعلق ہے، ان سوالات پر سرسری طور پر غوروغوض آج سے لگ بھگ دس سال قبل ہی شیخوں نے شروع کر دیا تھا۔ اس بابت عرض ہے کہ خاکسار کے بڑے بھائی دبئی میں پندرہ سال سے قیام پذیر ہیں اور بھائی جان وہاں پر ایطسلات کمپنی میں جاب کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ شیخوں نے اپنی ‘عیاشیوں‘ میں کمی کرنی شروع کر دی ہے اور محض تیل پر انحصار کرنا بتدریج چھوڑ رہے ہیں۔ اس ضِمن میں دبئی کے شیخوں نے اپنی نسلوں کو عملی زندگی میں آگے لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے بچوں کو بیٹھے بٹھائے تیل کی کمائی پر گزر اوقات کرنے کی بجائے انہیں ‘کارآمد‘ و ‘ہنرمند‘ بنا کر دبئی کے انتظامی و تعمیری و ترقیاتی اداروں و شعبوں میں لا رہے ہیں۔ نتیجتآ دبئی میں دنیا کے عمومآ جبکہ جنوبی ایشیاء کے خصوصآ ہنرمندوں کی بجائے دبئی کے شیخ اپنے معاملات خود چلانے میں آہستہ آہستہ خودکفیل ہو رہے ہیں۔ اور یہ بات اس بات کو بخوبی دکھاتی ہے کہ دبئی کے باشندے متوقع نازک حالات کو دیکھ رہے ہیں اور ان کے توڑ کے لیے کوششیں شروع کر رہے ہیں۔ اس کی ضرورت تب زیادہ محسوس کی گئی جب ‘معاشی بحران‘ آیا۔ فدوی کے بڑے بھائی کے بقول دبئی میں ان کے ساتھ کام کرنے والے بہت سے پاکستانیوں کو ویزہ میں توسیع دینے سے انکار کر دیا گیا اور مختلف وجوہات جن میں ‘معاشی بحران‘ کی وجہ زیادہ بتائی گئی تھی، انہیں جاب سے برخاست کر کے واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔ مُکدی گل، عرب لوگوں نے عقل و دانش کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور ‘اپنی مدد آپ‘ اصول کی اہمیت و افادیت کو جان گئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دبئی دلکش شہر ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہاں جرائم نہیں ہیں۔ آپ کسی بھی وقت سڑکوں پر بغیر کسی خوف کے گھوم سکتے ہیں۔
اگلی دفعه جب آپ دبئ تشریف لایین تو "هورالعنز " اور "منطقه حمدان " ضرور جایئیگا ، کورنگی اور لانڈهی کی یاد تازه هوجایگی ، وهاں کچه پاکستانی آنٹیون سے ملکر آپ کو لاهور کے بادامی باغ کے قریبی علاقے یاد آجاینگے ، پرانے عربی گهروں كى 5 کمرون میں 8 فیملیاں رھتے ھوے بھی دیکھنا نا بھولیے ،