| بلاگز | اگلا بلاگ >>

جوشی کی الوداعی شام

اصناف:

اسد علی | 2010-02-04 ، 5:57

لندن۔ بدھ۔ دریائے ٹیمز کا کنارہ۔ جاڑوں کی ایک اور سرد رات۔ وسطِ ہفتہ منانے کے شوقین تنہا یا اپنی اپنی محبتوں کے ساتھ جیبوں میں ہاتھ ڈالے تیزی سے اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں تھے۔

بس سٹاپوں پر معمول کے مطابق رش تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، جو پھر دنیا بھر سے آئے اس شہر کے باسیوں کے لیے معمول کی بات تھی۔
ٹریفک بھی ہمیشہ کی طرح دھیرے دھیرے سرک رہی تھی۔
اگر کوئی غیر معمولی بات کہی جا سکتی تھی تو وہ واٹر لو سٹیشن کے سامنے والے بس سٹاپ کے پیچھے، سینزبری کی سپرمارکیٹ کے پہلو میں ایک گندے سے کونے سے اٹھنے والے قہقہے، سُر اور شور تھا۔

قہقہوں اور شور پر تو لندن کے مزاج کے مطابق راہگیر کان نہ دھرنے کی ایکٹنگ کر رہے تھے، لیکن سُروں کے پھوٹنے پر کئی ایک کے چہروں پر مسکراہٹ آجاتی اور وہ ایک نظر ضرور اس طرف ڈالتے ہوئے گزرتے۔

چار ہندوستانیوں، ایک پاکستانی اور ایک نیپالی نے مل کر ایسے سر بکھیرے کہ سب کو مزہ آ گیا۔ مجھے نہیں معلوم کے وہ وہاں کیسے پہنچے اور پھر کیسے اسی کونے میں جم گئے لیکن میرے پہنچنے تک محفل جم چکی تھی اور ان کا وہاں سے ہلنا محال تھا۔

کبھی 'اے دل کہیں اور چل' کی صدا بلند ہوتی تو کبھی 'آئے گا آنے والا' گایا جاتا۔ موقع ہندی سروس کے راجیش جوشی کی الوداعی شام تھی۔

راجیش جوشی برطانیہ میں آٹھ سال گزرانے کے بعد اپنی بیوی رچا اور دو سالہ بیٹی جنیلی کے ساتھ ہندوستان واپس جا رہے ہیں۔ ان کا تعلق بھیم تال اور نینی تال سے ہے لیکن وہ دلی میں ہی رہیں گے۔

اتنے سالوں میں میرا جب دل کیا میں ان کے گھر جاتا رہا اور وہ لوگ مجھے حلال چکن بنا کر کھلاتے رہے۔ یہاں بتانا ضروری ہے کہ رچا صرف سبزی کھاتی ہیں۔ راجیش نے تو پاکستانیوں کی گھر آمد کے موقع پر پہننے کے لیے ایک آدھ شلوار قمیض بھی رکھی ہوئی ہے۔

بریگیڈیئر صاحب(رچا کے والد) جب بھی گھر ہوتے تو ان کے ہاتھ کی بنی چائے بھی مل جاتی۔ ان کا لندن میں کافی وقت گھر کے پاس ملتان سے آئے ایک پاکستانی کی دکان پر گپ شپ میں گزرتا ہے۔

راجیش کو شوق ہے کہ ان کی بیٹی جنیلی گھر آنے والے مسلمانوں کا السلام علیکم سے استقبال کرے۔ اور جنیلی، جس کے نام کا مطلب چاندنی ہے، اور شاید ہندی کا بھی ایک آدھ ہی لفظ بول سکتی ہے اپنے والد کی عزت رکھنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔

بلکہ آج بھی راجیش نے اپنے گھر پہنچ کر آدھی رات کو فون کیا اور باقی باتوں کے ساتھ ساتھ حسب معمول جنیلی کو فون پر بلا کر بولا کہ اسد کو سلام کرو، لیکن اس بار وہ اپنی ہی زبان میں کچھ کہہ کر بھاگ گئی۔

اس ساری بات کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہر ہندوستانی پاکستان کی اور ہر پاکستانی ہندوستان کی تباہی نہیں چاہتا۔

یہ یقیناً درست ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی کل آبادی میں سے زیادہ نہیں تو لاکھوں لوگ ضرور ایسے ہیں جو بدقسمتی سے ایسا ہی چاہتے ہیں اور شاید اس سے آگے سوچنا بھی نہیں چاہتے۔

یہ بھی سچ ہے کہ ان لوگوں کی آواز زیادہ سنائی دیتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بعض اوقات جن ہندوستانیوں اور پاکستانیوں سے یہ لوگ نفرت کرتے ہیں وہ صرف ان کے خیالوں میں بستے ہیں۔ ان کا حقیقت میں وجود نہیں۔

گزشتہ سال ہندوستان کے دورے کے دوران ایک سے زیادہ بار سڑک پر لوگوں سے خاص طور پر کچھ نوجوانوں سے یہ سننے کو ملا کہ آپ تو بالکل ہمارے جیسے ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو پاکستان پر حملے کے حق میں تھے لیکن کچھ ہی دیر میں وہ اپنے شہر کی سیر کروانے کی پیشکش کر رہے تھے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 7:55 2010-02-04 ,Sajjadul Hasnain Hydrabd India :

    اسد صاحب السلام عليکم
    بے شک آپ کی بات سے صد فيصد اتفاق ہے مجھے۔ اب يہی ديکھ ليجيے شاہ رخ خان نے پاکستانيوں کی حمايت کی بات کی تو شيو سينا نے يہاں اپنی وہی پاليٹکس چلانے کی کوشش کی۔ جواب ميں نہ صرف ميڈيا بلکہ انڈسٹری کا ايک بڑا طبقہ شاہ رخ کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوگيا۔ ويسے يہ چينج وقت کی دين بھی ہے۔ دنيا اتنی اڈوانس ہوگئی ہے کہ لوگوں کے پاس اب لڑائی کے لیے وقت ہی نہيں ہے۔ اس ميں ٹی وی ميڈيا کا بھی ايک بڑا رول رہا ہے۔ ايک زمانہ تھا جب انڈيا ميں لوگ محض بابری مسجد اور رام مندر کے معاملے کو لے کر حکومت بنا ليتے تھے ليکن آج مذہب کے نام پر حکومت يا پھر کوئی بھی مفاد حاصل کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ انڈو پاک کے نام پر شمالی ہند خاص کر ہندی بيلٹ ميں پوليٹکس ہوجاتی ہے مگر اميد ہے کہ وقت کے ساتھ يہ جو ذرا سی چپقلش ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی، انشاءاللہ۔

  • 2. 8:20 2010-02-04 ,مصد ق خا ن نيا ز ی ميا نو ا لی :

    صاحب جی آپ کو کافی عرصے بعد دیکھ کر خوشی ہوئی۔ آپ کی باتیں قابل غور ہیں۔ راجیش ہمیں تا دیر یاد رہیں گے۔ بات اکثریت کی ہوتی ہے، ایک فرد یا ایک جماعت سے مجموعی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

  • 3. 9:19 2010-02-04 ,محبوب بگٹی :

    بہت خوب تبصرہ ہے اور آپ کے ذاتی تاثرات بھی بیان کے قابل ہیں مگر یہ صرف ذاتی ہیں۔ آپ خود اچھے ہوں گے جو آپ کو اچھے ہندوستانی ملے ہوں گے۔ مگر اکثر بہت اچھے پاکستانیوں کو بھی کچھ اچھے ہندوستانی بھی نہیں ملتے۔ آپ کی طرح ہمیں بھی یہ خوش فہمی اکثر ہوتی رہتی ہے مگر جب کبھی بابری مسجد، سانحہ گجرات کے بارے میں سوچتے ہیں اور کشمیر کے بارے خبریں پڑھتے ہیں تو اپنی خوش فہمیوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال یہ کشمش جاری رہتی ہے۔۔۔۔کب تک جاری رہے گی؟۔۔۔۔۔یہ ہنوز جواب طلب ہے۔

  • 4. 9:23 2010-02-04 ,جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین :

    بھائی صاحب!
    آپ ہمیں بہت بھولا سمجھتے ہیں یا عقل سے محروم۔ آپ جن لوگوں کو نہیں جان پائے یا جاننا نہیں چاہتے۔ انکے پاکستان اور مسلمانوں سے تعصب اور نفرت پہ مبنی ، ایک نہیں کئی ایک ایسے واقعات بیان کر سکتا ہوں ۔ جن کا میں خود شاہد ہوں۔ جبکہ یہ وہ ہندؤ ہیں جو اپنے آپ کو آزاد خیال اور پاکستان کے خیر خواہ کے طور پہ پیش کرتے ہیں اور یورپ میں رہتے ہیں ۔ جن کے مالی یا کاروباری مفاد کسی حد میرے بزنس سے جڑے تھے۔
    ذرا تصور کریں۔ وہ ھندو جو بھارت میں رہتے ہیں ۔جن کے نیتا انہیں دن رات مسلمانوں سے نفرت کرنے پہ ابھارتے ہیں وہ کس طرح مسلمانوں سے سلوک کرتے ہیں۔ یہ سلوک جاننے کے لئیے بی بی سی کا ملازم ہونے کے ناطے، بی بی سی کے ملازم کی حیثیت سے بھارت کا چند دن کا دورہ اور مہمان نوازی کافی نہیں ۔بلکہ اسے جاننے کےلئیے ایک عام بھارتی مسلمان کی حیثیت سے بھارت میں کچھ وقت گزارنا ضروری ہے۔

  • 5. 9:30 2010-02-04 ,علی گل ، سڈنی :

    يہاں آسٹريليا ميں رہتے ہوئے ہم نے کبھی محسوس نہيں کيا کہ انڈين ہمارے دشمن ہيں بلکہ دونوں ملک کے لوگ يہ پرواہ بہت ہی کم کرتے ہوں گے کہ يہ انڈين ريسٹورنٹ ہے يا پاکستانی ۔اور ديوالی کا ميلہ ہو يا چاند رات آپ کو دونوں قوميں خوش گپيوں ميں ہی نظر آئيں گيں۔پاکستان کے بہت سے لوگ بلا تکلف انڈيا جاتے ہيں اور وسيم اکرم اور غلام علی گلوکار کے وہ فين بھی ہيں بلکہ وسيم اکرم کی اہليہ کی موت سے پہلے انہيں ايمرجنسی لينڈنگ بھی دی گئی اور بلا چيکنگ پروسيس اسے فوری ہسپتال لے جايا گيا۔اصل ميں دونوں ملکوں ميں دو قسم کے لوگ ہيں ايک تو وہ جو انسان کو انسانی نظر سے ديکھتے ہيں دوسرے وہ جن کی نظر حيوانی ہے اور يہ مذہب،ذات پات اور زبان کو ثقافتی ورثوں کی بجائے ہتھيار کے طور پراستعمال کرکے مفاد ليتے ہيں۔ورنہ پاکستان کے ہر گھر ميں انڈين گانے چلتے ہيں اور انڈين فلميں ديکھی جاتی ہيںـ بسنت پہ بھی تنگ نظر ليڈر پابندی لگاتے ہيں اور آزاد خيال اس کے حق ميں تگ و دو کرتے ہيں اور لڑکوں کے ہوسٹلوں ميں آپ کو انڈين فلمی سٹارز کی فوٹو ان کے کمروں ميں مليں گيں يہ پيار نہيں تو اور کيا ہوسکتا ہے۔

  • 6. 12:40 2010-02-04 ,Najeeb-ur-Rehman, لاہور :

    اپنے چوہدری جی، آداب! آپ نے اپنے بلاگ میں جتنے بھی سچ کا ذکر فرمایا ہے وہ واقعی ہی سچ ہیں اور یہ بھارت اور پاکستان کے عوام کی آواز ہے۔ اصل میں بھارت اور پاکستان دونوں کی ‘اسٹیبشیلمنٹیں‘ نہیں چاہتیں کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی رکھیں اور براہ راست باہم آپس میں بھائی چارہ کا عملی نمونہ پیش کریں۔ کیونکہ دونوں ملکوں کے کرتا دھرتا آج بھی متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کی پالیسی ‘پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ پالیسی پر گامزن ہیں کہ صرف یہی ایک گُر ہے جس کے تحت تقسیم کے فوری بعد زمینوں اور جائیدادوں کی دو نمبر بندر بانٹ کے تحت ککھ پتی سے لکھ پتی بن جانے والا ‘اقلیتی ٹولہ‘ اپنی کرسی کو قائم رکھ سکے۔ سن اٹھارہ سو اٹھاون میں لارڈ ڈلہوزی نے کہا تھا کہ ‘ہماری بہترین حکمتِ عملی یہ ہونی چاہیے کہ ایک قوم کو دوسری قوم سے اور ایک فرقہ کو دوسرے فرقہ سے ہمشیہ دست و گریبان رکھیں‘۔ اسی طرح ایک سال بعد سن اٹھارہ سو اُنسٹھ کو جنرل جان نے کہا تھا کہ ‘ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہندوستان کے مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو پوری قوت سے ابھاریں اور ہندو مسلم میں کبھی اتحاد نہ ہونے دیں، ‘لڑاؤ اور حکومت کرو‘ ہماری حکومت کا اصل الاصول ہونا چاہیے‘۔ پاکستان میں ‘ملاں ازم‘ اور بھارت میں ‘ہندو ازم‘ جو بلواسطہ حکومتیں کر رہے ہیں، اس اصول کو اپنائے ہوئے ہیں اور اپنا حلوہ مانڈا چلائے جا رہے ہیں۔ ان کی سیاست اس نکتہ یا نقطہ کے گرد گھومتی ہے کہ جب ہندوستان اور پاکستان میں دوستی کی پینگیں بڑھنا شروع ہوں تو ان میں روڑے اٹکائے جائیں اور جب یہ دونوں لڑ رہے ہوں تو ان کی صُلح کروائی جائے۔ گویا ‘رنگ میں بھنگ اور بھنگ میں رنگ‘ ڈال کر اسٹیبلیشمنٹیں بھارت اور پاکستان پر حکومت کرتی رہیں۔ سکھوں کی ننکانہ صاحب اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مڑی آمد سے لوگوں میں جو چہل پہل دیکھنے کو ملتی ہے ان کو الفاظ میں پرونا بہت مشکل ہے۔ ان اجتماعات میں سکھوں اور مسلمانوں کے مابین اس قسم کا جوش و خروش، گہما گہمی اور ملنساری دیکھنے کو ملتی ہے کہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے بقول کشور کمار ‘ کب کے بچھڑے ہوئے، ہم آج کہاں آ کے ملے‘۔ اسی طرح کے جذبات و بھائی چارہ بھارت میں خواجہ غریب نواز کے مزار پر پاکستانی یاتریوں اور بھارتیوں میں دیکھے جاتے ہیں۔ ان چند تصاویر سے دونوں ملکوں کے عوام کے ایک دوسرے سے پیار و محبت کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے اور یہ کہنا ایک اٹل حقیقت ہے کہ کروڑوں بھارتی اور پاکستانی ایک دوسرے کی خیر چاہتے ہیں اور کسی قسم کا کوئی بیر نہیں رکھتے۔ اور جو لاکھوں ہندوستانی پاکستان کی اور پاکستانی ہندوستان کی تباہی چاہتے ہیں یہی لوگ اصل میں دونوں ملکوں پر ‘حکومت‘ کر رہے ہیں۔ نظام تعلیم، پرنٹ و الیکٹرانک اور سائبر میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر انہی لوگوں کا کنٹرول ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی ‘آواز‘ پورے ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی ‘آواز‘ بظاہر نظر آتی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لاکھوں لوگ آہستہ آہستہ کروڑوں میں بدل رہے ہیں جسکی وجہ پاکستان میں ‘دو قومی نطریہ‘، ‘نظریہ پاکستان‘، ‘ملائئیت‘ اور یکطرفہ تاریخ کو نصاب میں تھوک کے حساب سے داخل کرنا اور امتحانات میں انہی نکات کو فوکس کرنے والے سوالات کو بار بار دینا ہے تاکہ نئی نسل ان خودساختہ نظریوں سے کُلی طور پر ‘ہپناٹائز‘ ہونے پر مجبور ہو جائے۔

  • 7. 13:00 2010-02-04 ,Dr Alfred Charles :

    اسد صاحب! آپ نے درست سمت ميں اشارہ کيا ہے۔واقعی ايسے افراد قليل تعداد ميں ہيں جوقتل و غارت تباہی و بربادي چاہتے ہيں ۔دوسری جانب دونوں طرف کی اکثريتی عوام پيار محبت وامن وامان اور گرم جوشی پر مبنی تعلقات کی حامی ہے۔ مگر حال يہ ہے کہ امن کی فاختاؤں کی تو کوئی سنتا نہیں مگر چند ايک شکروں کی بڑھکوں سے ہر کوئی متاثر ہو جاتا ہے۔ امن و دوستی کی باتيں کر نے والوں کو ديوانہ اور انکی ميٹھی باتوں کو ديوانے کی بڑ قرارديا جاتا ہے۔ دونوں طرف کی عوام کو چاہيے کہ ايسے عقابوں و شکروں سے ہوشياررہيں تاکہ علاقے ميں حقيقی امن و بھائی چارہ قائم ہو سکے

  • 8. 13:28 2010-02-04 ,احسن رضا :

    اسد بھائی، بلکل صحیح فرمایا- میں تین مختلف ملکوں میں رہا ہوں، ہر جگہ ہندوستانی اور پاکستانی کیا، سب جنوبی ایشیا اکٹھے ہی دیکھے ہیں- تو کون لوگ ہیں جو انکو اپنے دیس میں رہتے ہوئے آپس میں ملنے نہیں دیتے؟ یہ پاکستانی اور ہندوستانی 'شِوسنایں' ہیں جنکا کاروبار ہی نفرت ہے- جو کبھی الیکشن تو جیت نہیں سکتیں بس ایسے ایشوز پر شور مچا سکتی ہیں جو کسی عام آدمی کا نہیں!

  • 9. 13:55 2010-02-04 ,Najeeb-ur-Rehman, لاہور :

    ‘ہر ایک گھر میں نہ جب تک چراغ جل جائے
    کمال روشن و آباد اپنا گھر نہ سمجھو‘

  • 10. 15:01 2010-02-04 ,Shahab Khan :

    انڈیا سے نفرت کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد تقریباً پچیس ہزار ہے، جو گنتی ہے نام نہاد سکورٹی ایکسپرٹ زید حامد کے فیس بک پر مداحوں کی۔ ہم پاکستانی سترہ کروڑ سے زیادہ ہیں۔ یہ تو برا نہیں۔

  • 11. 11:20 2010-02-05 ,sana khan :

    کبھی ہندی سروس والوں کو اپنے گھر بھی چائے کھانے پر بلاليا کرو،انڈين بھی ہمارے جيسے ہی ہوتے ہيں بس سياستدان ہيں جو گند مچاتے ہيں

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔