اللہ ہی خیر کرے
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے گزشتہ بدھ کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں اسلام آباد اور لاہور کے صحافیوں اور کالم نگاروں سے ملاقات کی اور اس ملاقات کے دوران انہوں نے کہا 'ہاں، میں انڈیاسینٹرک ہوں۔ لیکن اس کی چند وجوہات ہیں۔ فوج کی پالیسی اس وقت تک بحثیت ایک ریاستی ادارے کے تبدیل نہیں ہوسکتی جب تک کشمیر اور پانی کے مسائل حل نہیں کیے جاتے ہیں'۔
اس کے علاوہ بھی انہوں نے جو باتیں کی ہیں علاقائی صورتِ حال میں پاکستان کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے نہ تو انہیں کسی کے لیے متنازع ہونا چاہیے اور نہ ہی اس پر کسی کو کوئی اختلاف ہونا چاہیے۔
اس لیے کہ وہ ایک ایسے شعبے کی نگرانی کرتے ہیں جسے اسی تناظر میں سوچنا چاہیے کے جغرافیائی حالات میں بات کہاں تک جا سکتی ہے اور اس میں انہیں اور ان کے شعبے کو کس طرح کے فرائض ادا کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔
نہ صرف انڈیا بلکہ دوسرے ملکوں کی بری اور دوسری مسلح افواج کے سربراہ بھی یقینی طور پر اسی تناظر میں سوچتے ہوں گے۔
لیکن مجھے نہیں یاد پڑتا کے بھارت یا کسی اور ملک میں مسلح افواج کے سربراہ اس طرح صحافیوں سے ملاقاتیں کرتے ہوں اور ان سے صیغہ واحد متکلم میں ملک کے دفاع کے بارے میں اپنی سوچ کا اظہار اس طرح کرتے ہوں جیسے وہ کسی ایسے کو جو ان کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتا، یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کی سوچ کیا ہے۔
اس سے پہلے بھی جب مسلم لیگ کے سربراہ نوازشریف وکلا کے ہمراہ لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد آ رہے تھے تو اس وقت بھی ان کا ذکر خیر اس طرح آیا تھا جو انتہائی نامناسب تھا لیکن اس پر بھی نہ تو انہوں نے خود، نہ ان کے ادارے کے شعبہ تعلقاتِ عامہ نے اور نہ ہی حکومت نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی یہ بتایا کہ حقائق وہ نہیں ہیں جو بیان کیے جا رہے ہیں۔
لیکن ایک ایسے وقت میں جب آزادی کے نام پر پاکستان کے الیکڑانک ذرائع ابلاغ میں خاص ھور پر حدود سے تجاوز کا مقابلہ جاری ہے بری فوج کے سربراہ کا 'میں' کے صیغے میں بات کرنا کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ پتہ نہیں ان سے ملاقات کرنے کے لیے بلائے جانے والوں کو بطور صحافی یہ بات کیوں نہیں کھٹکی یا پھر جو لوگ بلائے گئے تھے انہیں بہت دیکھ بھال کر بلایا گیا تھا۔
جو بھی ہو سندھ کے حالات کو سامنے رکھتے چیف صاحب کا بیان پڑھا جائے تو بے ساختہ منہ سے یہی کلمہ نکلتا ہے: اللہ ہی خیر کرے۔
تبصرےتبصرہ کریں
اگر یہ انڈیا میں ہوتا تو اب تک انہیں ڈس مس کیا جا چکا ہوتا۔ وہ سول ملازم ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہ ایک اور مہم جوئی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جیسے مشرف نے 1999 میں کی تھی۔
ہم بھی بلاگ لکھتے ہیں ذرا کھل کر لکھیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ ایک دفعہ پھر میرے عزیز ہم وطن کوئی چاپ تو نہیں سن رہے؟
اگر ایسا ہے تو جی یہاں جاپان میں عام سے پاکستانی لوگ بھی اس بات کا ذکر کر رہے تھے کہ کیانی صاحب کو نوکری لمبی کرنے کی پڑی ہوئی ہے اور آرمی چیف کی نوکری لمبی کرنا خود کو پرموٹ کر کے صدر پاکستان بن جانے کو کہتے ہیں۔ ’سانوں کی جی‘ ہمارے پاس جاپان کا ویزھ ہے اللہ جاپان کو آباد رکھے۔
الللہ خيرکرے ! تبصرہ بھی کوئی نہيں آيا؟
پاکستان ميں پٹواری ہوں، افسر ہوں، پوليس يا فوجی اہلکار ہوں يا محلے کا چوہدری ہو سب (ميں يا سانوں) کا لفظ استعمال کرکے يہ تاثر دينے کی کوشش کرتے ہيں کہ کوئی شريف آدمی ان کا بال بيکا نہيں کرسکتا اور وہی سفيد و سياہ کے مالک ہيں۔ اور يہ slang يعنی آمرانہ زبان معاشرے کے کرتا دھرتا لوگوں کا تعارف بن چکی ہے اور جنرل صاحب نے بھی شايد يہ بيان اسی کے تحت ديا ہو بس اللہ ہميں شر سے محفوظ رکھے۔ جہاں تک انڈيا کی بات ہے وہاں چونکہ فوج سياست نہيں کرتی اور ہميشہ سے جمہوری ملک رہا ہے تو وہاں کے جنرل تہذيب يافتہ ہی ہوں گے کيونکہ وہ گورنمنٹ کے ملازم ہيں اور گورنمنٹ عوام کی ہے۔
بھارتی فوج کے سربراہ ديپک کپور کے اس بيان پر کہ وہ بيک وقت پاکستان اور چين سے جنگ کے لیے تيار ہيں، جو کہ بنا کسی provocation کے ديا گيا تھا، ہمارے دل سے بھی نکلا تھا کہ اللہ خير کرےـ کيانی نے تو صرف حقيقت بيان کی ہے۔
بھائی صاحب- وطن عزيز کے سياستدانوں کی نالائقي، نا اہلي، نا اتفاقی اور بزدلی کی وجہ سے قيادت کے خلا کو کسی نے تو پر کرنا ہے، وہ تو شکر ہے کہ حکومت اور سياست جيسے مشکل کام کو سرانجام دينے کے ليۓ ہمارے بہادر جرنيل اپنی خدمات وقتاً فوقتاً پيش کرتے رہتے ہيں- جن کي وجہ سے قوم کے چند سال اچھے گزر جاتے ہيں اور دشمنوں کو بھي کان ہو جاتے ہيں-
قدم بڑھاؤ کيانی ہم تمھارے ساتھ ہيں- فاتح سوات، فاتح وزيرستان (آدھا)، - زندہ باد-
آپ کو امريکی وزيردفاع کا يہ بيان پڑھ کرخدا ياد نہيں آيا کہ اگر انڈيا ميں دوسرا ممبئی جيسا واقعہ ہوا تو انڈيا حملہ کرنے ميں حق بجانب ہو گا؟ صرف پاکستانيوں کے بيان پر آپ کو خدا ياد آتا ہے؟
سرجی، آپ درست کہتے ہیں کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے
محترم انور سن رائے صاحب، آداب عرض بہ مطابق خاکسار، جنرل کیانی کا صحافیوں سے ’صیغہ واحد متکلم‘ میں بات کرنا اُن کی ذہانت و دور اندیشی و زیرکی کو ظاہر کرتا ہے۔ وجہ یہ کہ چونکہ فوج ملک کا ایک اہم ادارہ ہے اور اس ادارے کی کوئی بھی بات یا بیان پورے پاکستان کے مقاصد و عزائم و پالیسی کی غمازی سمجھی و گردانی جاتی ہے، لہذا جنرل کیانی کا ’صیغہ واحد متکلم‘ میں اندازِ تخاطب کا بظاہر مقصد یہ دکھانا ہے کہ کیانی کے خیالات ان کے اپنے ’ذاتی‘ ہیں، یہ فوج کی ’آواز‘ نہیں ہے۔ بغور دیکھا جائے تو جنرل کیانی نے ’صیغہ واحد متکلم‘ کا استعمال اس سندرتا سے کیا کہ ’سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘ اور اس مقصد میں کیانی صاحب بھرپور کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے بیان کا خارجی سطح پر کوئی قابلِ توجہ ردِعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ ممبئی دہشت گردی، کشمیر دہشت گردی، پاکستان کرکٹروں کی آئی پی ایل میں بولی نہ لگنا، شاہ رخ کے بیان کو بنیاد بنا کر شیو سینا کا پاکستان کے دوالے ہونا، ملک کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے، عالمی دباؤ کے باوجود‘ لشکر طیبہ اور لشکرِ جھنگوی کے خلاف کوئی ’ٹھوس‘ کاروائی نہ کرنا ۔۔۔ جیسے زمینی و سیاسی و عسکری حالات میں ’صیغہ جمع متکلم‘ یعنی ’ہم‘ کا استعمال کرنا دراصل ایسا ہی ہوتا جیسے کوئی بندہ ’دشمن‘ کو براہ راست خود ہی ’حملہ‘ کرنے کی ’ترغیب‘، ’جواز‘ اور ’دعوت‘ دے۔ اتحادیوں کی افغانستان میں موجودگی اور تیس ہزارمزید فوج کی عنقریب تعیناتی، بھارت کے امریکہ سے بڑھتے ہوئے تعلقات، اور بھار ت اور امریکہ کی چین سے چپقلش کو مدِنظر رکھتے ہوئے فدوی کے خیال میں پاکستانی فوج کو بحثیت ایک ریاستی ادارہ کے اپنی پالیسی بدلنی چاہیے اور ’عالمی استعمار‘ کو پرے پرے رکھنے اور اس کو ’شانت و رام‘ کرنے کے لیے کم از کم ’کشمیر‘ ایشو کو فی الحال لپیٹ کر ’پالیسی سازی‘ میں سے نکال دینا چاہیے اور اس کی جگہ ‘کراچی یا بھائی لوگ‘ کو پالیسی میں رکھ کر پاکستانی فوج ہو بہو اپنے وہی مقاصد حاصل کر سکتی ہے جو کہ ’کشمیر‘ کو رکھ کر حاصل کرتی رہی ہے۔ آخر میں، محترم رائے صاحب، فدوی آپ سے ایک پرارتھنا کرتا ہے کہ آپ کے بلاگ کی تعلیمات یا حاصل کلام تک پہنچنا بہت زیادہ غور و خوض اور غوطوں کا تقاضا چاہتا ہے جو کہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی اور کچھ یہی صورتحال فدوی کا آپ کے ناول بعنوان ‘کرائی‘ (چیخ) میں دورانِ مطالعہ بھی نظر آئی تھی۔ ہاں البتہ جب قاری حاصل کلام تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو پھر پڑھنے والا نہ چاہتے ہوئے بھی لکھاری کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ بات فدوی نے آپ کے ناول کے میں دورانِ مطالعہ محسوس کی تھی۔ آپ سے درخواست ہے کہ ازراہِ مہربانی بلاگ میں فلسفہ و نفسیات کو استعمال کم سے کم کیا کریں کی بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے اکثریتی قارئین اس کی آسان زبان و الفاظ، اور سادگی ہی کی بدولت اسکا وزٹ کرتے ہیں اور اسے پسند کرتے ہیں۔ شکریہ۔
فوجی بندہ سول ملازم کیسے ہوا؟ دوسرا کیانی کے بارے میں اسی بی بی سی کی رپورٹ تھی کہ وہ اپنی ملازمت میں توسیع کے لئے تیار نہیں تھے۔ کیا اتنی جلدی ارادہ بدل گیا؟ انور سن صاحب، انڈین جنرل کی طرف سے محدود ایٹمی جنگ کے بارے آپ کی خاموشی بہت اچھی لگی اور جنرل کیانی کے بیان پر آپ کا یہ کالم بھی اس سے زیادہ اچھا لگا۔ ویسے آپ اچانک ہی سوتے سوتے جاگ پڑتے ہیں اور پھر دوبارہ سو جاتے ہیں، اس کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا دیگر "ایشوز" نان ایشوز ہوتے ہیں یا پھر آپ کے کالم کی "وسعت" انہیں کور نہیں کر سکتی؟
سوچيں اگر مسئلہ کشمير حل ہوگيا تو--- تو ہماری عوام کا پہلا مطالبہ ہوگا کہ ملکی بجٹ کا ستر فيصد دفاعی خرچہ ختم کيا جاۓ -- افواج کی تعداد ميں کمی کی جاۓ- اگر ايسا ہوگيا تو جرنيلوں سے ليکرميجروں تک ہر فوجي کی لاڈلی اور خودسراولادوں کا مستقبل تاريک ہوجاۓ گا گھروں ميں بيٹھ کر آرام کرنے والے يا ميدانوں ميں کھيل کود کرنے والوں کو نوکرياں تلاش کرنا پڑيں گی -اور نوکرياں لے جائيں گے ستر سال تک ان کی برہ راست يا پس پردہ غلامی ميں رہنے والے عوام- جرنل کيانی الفاظ بھی اسی حقيقت کی طرف اشارہ کرتے ہيں کہ سانپ کے مرنے تک لاٹھی ہمارے پاس ہی رہے گي اور يہ کوئ حيران انکشافات نہيں ہيں پچھلے ”شہزادے” بھی کچھ ايسے ہی خیلات رکھتے تھے- باقی ناچيز کا خيال ہے کہ صحافيوں سے لے کر سياسی جماعتوں تک اکثريت ان کے کنٹرول ميں ہے
انڈيا پاکستان اور چين دونوں سے جنگ ايک ساتھ کر سکتا ہے انڈين آرمی چيف
اس کو ذہن ميں رکھ کر سوچيں تو شا ئد سمجھ آجائے
آپ سب کو۔
جناب الور سن رائے جی
ذرا اردگرد نظر ڈالیں کیا ہم آپ سبھی اس ’میں‘ کے مرض میں مبتلا نہیں؛ آپ نے یا میں نے کب آخری مرتبہ اس ’میں‘ کی رو میں کوئی فیصلہ کیا تھا۔
سرور غزالی
انور سن صاحب جہاں تک ميرا خيال ہے اس معاملے پر مجھے کچھ کہنے کا حق نہيں پہنچتا کيونکہ يہ درون خانہ والا معاملہ ہے، مگر ايک تو آپ سے دلی تعلق اور دوسرے تحرير کی گمبھيرتا نے مجھے کچھ کہنے پر مجبور کرديا ہے کيا؟ اللہ خير کرے، ہند پاک کو سلامت رکھے اور دونوں ملکوں کی عوام کو ايک اور کٹھن امتحان سے بچائے۔ آمين، ثم آمين۔
جنرل کیانی ملک کے وفادار ہیں۔ ۔ ۔ انہوں نے انڈیا کی جانب سے پاکستان کا پانی روکے جانے کی دیوانگی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں جنرل کی حمایت کرتا ہوں۔
ہمارے سیاستداں ملک سے غداری کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ وہ غدار ہیں۔ ۔ کیا نی اور چیف چسٹس ملک کے محافظ ہیں۔
دیپک کمار کے بیانات پر کچھ نہیں اور کیانی کے بیانات پر اتنی تکلیف بھی جان دن بہ دِن آپ کی تکلیف ضُرور زیادہ ہو جانے گی
جنگ تو ہونی ہی ہے۔ ہمیں سہانے خواب دیکھنے کی بجاے خود کو تیار کرنا چاہیے۔
پاليسی بيان تو امريکی برطانوی اور ہندوستانی چيف کی طرف سے بھی آتے ہيں ليکن جب يہ بيان پاکستانی چيف کی طرف سے آتے ہيں تو کسی انجانےخوف کا احساس دلاتے ہيں کيونکہ ماضی ميں جس طرح پاکستانی فوج نے باربار سول معاملات ميں مداخلت کي، آئين کو بار بار پامال کيا اور عوام کو بندوق کی نوک پر رکھ کر اقتدار پر قابض رہی۔ جنرل کيانی کا دنيا کو يہ پيغام دينا چاہتے ہيں کہ سول حکومت سے مذاکرات کر کے اپنا وقت مت ضائح کريں کيونکہ ملک کی خارجہ پاليسی اب بھی فوج کے کنٹرول ميں ہے۔ ماضی ميں جنرل کياني کا کردار مشکوک رہا ہے۔ ججوں کے معاملے میں پہلے تو زرداری کو افتخار چوہدری کو بحال کرنے سے باز رکھا کيونکہ لاپتہ افراد کے مقدمات کھلنے کا خدشہ تھا، اس کا اصل مقصد دو بڑی سياسی جماعتوں کو آپس ميں لڑانا تھا کيونکہ آگے چل کر وہ ہی ہوا جس کا پہلے انديشہ تھا يعنی دونوں جماعتيں جب دست وگريباں ہو گئيں توخود مداخلت کر کے جج بحال کرا ديے اور يوں ايک تير سے تين شکار يعنی دو بڑی جماعتں آپس ميں لڑ پڑيں اور دو رياستی ادارے آمنے سامنے آ گۓ۔ يہ لڑائی جب پوری شدت اختيار کر لے گی جس کا يقينی طر پر بہت امکان ہے تو فوج کو جواز مل جائے گا اقتدار سنبھالنے کا۔ يہ ساری باتيں آرمي چيف ملازمت مدت ختم ہونے سے پہلے نمٹانہ چاہتے ہيں تاکہ اپنی مدتِ ملازمت کو مدت اقتدار میں بدلا جا سکے اب يہ سياسی جماعتوں خصوصاً ن ليگ اور عدليہ پر منحصر ہے کہ وہ کسی چال ميں آتے ہيں يا جمہوريت بچاتے ہيں۔
کیانی پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بالکل درست کام کر رہے ہیں۔ بہت خوب جنرل اپنا کام جاری رکھو۔
پاکستانی فوج کا جنرل ہے، اور فوج اپنے محسن بھٹو کی قاتل ہے۔ اب تمام لوگ اندازہ کر لیں۔
الللہ خيرکرے گا بھائی پہچانا، جواب کا انتظار کروں گا
آپ نے درست لکھا ہے۔۔۔ بہت خوب