| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ہمارے قاتل، ہمارے ہیرو

یہ سازش کم اور تھیوری زیادہ ہے۔ اور آج کل مارکیٹ میں آنے والی زیادہ تر نئی تھیوریوں کی طرح یہ بھی یوٹیوب کے ذریعے مجھ تک پہنچی۔ ویڈیو ایک گرفتار ہونے والے خودکش بمبار کی تھی لیکن ویڈیو سے زیادہ اس کے نیچے لکھے جانے والے تبصرے ہماری دماغی حالت کا پتہ دیتے تھے۔

6538_entry4_206x116.gif

(کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ گرفتار ہونے والے زیادہ تر خودکش بمبار کم عمر لڑکے ہوتے ہیں جنہوں نے نیا نیا نشہ کرنا شروع کیا ہو۔ حالانکہ میرا خیال تھا کہ نشئی بچے بارود سے دور بھاگتے ہیں)۔ مذکورہ خودکش بمبار سے وہ ہی سوال پوچھے گئے جو ہر ایک ایسے بچے سے پوچھے جاتے ہیں: آپ نے کبھی شادی کرنے کا سوچا؟ شادی کیوں، جب موت کے بعد بہتر میرا انتظار کر رہی ہیں تو میں ایک کے چکر میں کیوں پڑوں۔ اگر رہا ہوگئے تو کیا کرو گے؟ خودکش حملہ کروں گا۔ آپ کے حملوں میں معصوم بچے بھی مارے جاتے ہیں، انکے بارے میں کبھی سوچا؟ آپ کو کس نے کہا کہ بچے معصوم ہوتے ہیں۔
ویڈیو کے نیچے کمنٹس والے سیکشن میں کچھ تبصرے ایسے تھے جن کو پڑھ کر مجھے ایسا ڈر لگا جو خودکش بمبار کے بچوں کے بارے میں خیالات سن کر بھی نہیں لگا تھا۔ یہ تبصرے بظاہر کچھ فوجی اور کچھ سویلین حضرات نے کیے تھے۔
'امیزنگ'
'ان لوگوں کا ایمان کتنا پختہ ہے'
'کاش یہ اس جذبے کے ساتھ ہندوستان پر بھی حملے کریں اور کشمیر آّزاد کرائیں۔'


خوفناک حد تک پڑھے لکھے اور پرہیز گار مبصرین آپ کو بتائیں گے کہ یوٹیوب پر بڑھکیں مارنے والے مجاہدین اور ان پر جذباتی تبصرے کرنے والے محض امریکی جبر کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

یہ بھی کہا جائے گا کہ ہمارے متوسط طبقے کی وہ بیبیاں جنہوں نے حال ہی میں برقعہ اور بخاری شریف دریافت کیا ہے انکے دلوں کی دھڑکنیں ان مجاہدین کی تقاریر سن کر تیز نہیں ہو جاتیں۔

ہمیں اکثر یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ سارا مسئلہ مسلم تشخص کا ہے۔ اور ہم پوری دنیا کو اسلام کا اصلی چہرہ دکھانا چاہتے ہیں، لیکن جیسا کہ راقم نے شروع میں عرض کیا یہ محض ایک تھیوری ہے اور ہم یہ معاملہ عمائدین پر چھوڑتے ہیں۔

لیکن ایک ایسے وقت میں جب ہمیں اپنے قاتل اپنے ہیرو لگیں اور اپنے ہیروز سے ہم یہ توقع رکھیں کہ وہ قتل کرتے رہیں لیکن ذرا دوسرے محلے میں جا کر، تو ان حالات میں ظاہر ہے فلسفیانہ سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ان سوالات کا جواب جاننے کے لیئے جنرل کیانی کیا پڑھ رہے ہیں؟ اگلے بلاگ میں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:18 2010-02-16 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ‘جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں‘

  • 2. 14:40 2010-02-16 ,Imran :

    آپ کےسازش بلاگ اور اس پر تبصروں سے یہ بات پتا لگتی ہے کہ ہمارا سب سے زیادہ مسئلہ اپنے اوپر تنقید برداشت کرنا ہے۔ اسلام کے نام پر ہم بیوقوف بننے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ہمیں مولوی بتاتا ہے کے میں جو کہ رہا ہوں یہ ہی اسلام ہے اور اگر تم نہیں مانتے توکافر ہو۔

  • 3. 15:06 2010-02-16 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ’تم ہی تجویز صلح لاتے ہو
    تم ہی سامانِ جنگ بانٹتے ہو
    تم ہی کرتے ہو، قتل کا ماتم
    تم ہی تیر و تفنگ بانٹتے ہو‘

  • 4. 15:11 2010-02-16 ,Sajjadul Hasnain Hydrabd India :

    حنيف صاحب، آپ نے دس بلاگ لکھنے کا وعدہ کيا تھا ٹھيک ہے۔ مگر اس پر سنجيدگی سے عمل کرنے کی تک ميری سمجھ سے باہر ہے۔ بھائی صاحب، چپکے سے نکل ليتے پتلی گلی سے، کيوں ڈھيٹ بنے گالياں ( ميرا مطلب تبصرہ نگاران کي سے ہے) سننے کو اتاولے ہوئے جارہے ہو۔ ويسے آپ نے شاہ رخ خان کی فلم ديکھی ’مائی نيم از خان‘؟ ميں نے بھی نہيں ديکھی ہے۔ سنا ہے اس فلم نے محض ان چار دنوں ميں ’تھری ايڈيٹس‘ سے کہيں زيادہ بزنس کيا ہے۔ اللہ کی پناہ، گناہ کبيرہ کرنے والوں کا گراف اتنا بڑھتا کيوں جارہا ہے۔ اگلا بلاگ (ميرا مطلب گيارہويں سے ہے) اسی موضوع پہ رکھيےگا۔

  • 5. 15:23 2010-02-16 ,sana khan :

    حنيف صاحب، لگتا ہے آپ نے کبھی زحمت نہيں کی بی بی سی پر ہی تبصرے پڑھنے کی، غرض کہ ’خوف‘ تو چھوٹا لفظ ہے آپکو ’خطرہ‘ بھی محسوس ہوگا مزيد يہ جان کر کہ ڈھٹائی، منافقت، تحريری شديد بڑھکيں کيا ہوتی ہيں، ميرا نہيں خيال جو لوگ تبصرے آگ لگی تقرير، خطاب کی طرح لکھتے ہيں وہ عملی زندگی ميں بھی سرعام ايسا ہی بولتے ہوں بلکہ جو چيز بندے کی پہنچ سے دور ہوتی تو پھر تنقيد کا ہتھيار استعمال کيا جاتا ہے ہروقت اسکی ياد ميں ويسے بھی ’بارکنگ ڈاگ سيلڈم بايئٹس‘

  • 6. 15:55 2010-02-16 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ‘وہ کہہ رہے ہیں محبت نہیں وطن سے مجھے
    سکھا رہے ہیں محبت مشین گنوں سے مجھے‘

  • 7. 16:01 2010-02-16 ,Husnain Hayder :

    حنیف صاحب، دہشتگردی کرنا یقینا سنگین جرم ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض لوگ خوفناک حد تک دہشتگردی کے مخالف ہیں لیکن آپ ایک بات بتانا تو بھول ہی گئے اور وہ یہ کہ یہ ساری دہشتگردی بہرحال امریکی پالیسیوں ہی کی مرہون منت ہے۔ کیا آپ بتائیں گے کہ فلسطینی بچوں کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر بندوق مولویوں نے پکڑائی تھی یا امریکہ اور اسرائیل نے؟ افغانستان پر امریکی حملوں سے پہلے پاکستان میں کتنے خودکش بمبار تھے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ غیر ملکی طاقتیں ایسے لوگوں کو مجرم بناتی ہیں اور ایک بار جب انسان حیوان بن جاتا ہے تو پھر اسے اس بات کی پرواہ نہیں رہتی کہ وہ کس کو نشانہ بنانے جا رہا ہے اور یہ صحیح ہے یا غلط؟ بھُس میں چنگاری ڈال کر تماشہ دیکھنے والوں کے آپ تنخواہ دار ہیں اور تنقید جلنے والوں پر کرتے ہیں۔۔۔ چہ خوب
    اگر آپ میں ذرا بھی انسانیت ہے تو اس طرح کے بلاگ لکھنا بند کر دیں مگر مجھے لگتاہے کہ بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

  • 8. 16:58 2010-02-16 ,وہاب اعجاز :

    ارے جناب، یہ تو ایک کم عمر منشیات زدہ نوجوان خود کش حملہ آور ہے جو کہ اپنے اعمال کا دفاع کررہا ہے ۔ میں آپ کو ایک ایسے شخص کا بتاتا ہوں جو کہ اس ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہے، جس کے فنڈ سے آپ کو تنخواہ ملتی ہے۔ وہ ٹریبونل کے سامنے کس ڈھٹائی سے عراق میں ہزاروں بےگناہوں کے قتل کا دفاع کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ چھوٹے میاں چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ۔

  • 9. 17:03 2010-02-16 ,احمد :

    کشمیر میں جہادیوں سے جان چھڑائی جائے، وہ وہاں انسانیت سوز مطالم کر رہے ہیں۔ قتل، ریپ اور اغوا، ہر جرم میں ملوث ہیں۔

  • 10. 17:13 2010-02-16 ,Dr Alfred Charles :

    حنيف صاحب!يہ سب اعلی سطحی ڈھونگ معلوم ہوتا ہے ۔بچوں کی يا تو برين واشنگ کی جاتی ہے يا جبرا” ان کو اس راہ پر لگايا جاتا ہے۔يہ تو نفسياتی مسلہ ہے۔ کيا آپ نے بی بی سی پر تيرا سالے مينا کی کہانی پڑھی سنی نہيں؟ يا پھر اپنے ايک ساتھی نثار کھوکھر صاحب کی جنوبی پنجاب کے مجاہدين کی کاروائيوں اور بعد از مرگ انکے خاندانوں پر بيتنے والی آپ بيتياں نہيں سنی پڑھيں۔؟ ويسے ان بمباروں کے تو لطائف بھی بڑے مشہور ہيں جن ميں سے دو آپ سے اور بلاگ کے قارئين سے شئير کرنا چاہوں گا۔ايک بمبار جس کابم نہ پھٹ سکا مگر وہ دہشت کے مارے بے ہوش ہوگيا جب اسپتال ميں لايا گيا تو بڑی عمر کی نرسوں کے حصار ميں ہوش ميں آيا تو کہنے لگا امير صاحب نے تو کہا تھا کہ جوان و خوبرو حوريں مليں گی مگر يہ کيا؟يہ کہہ کر پھر بے ہوش ہوگيا!ايک بمبار طاقتور بم دھماکے کے بعد اپنے امير کو پيغام بھجواتا ہے کہ برا کرم ميرے بعد والے کا بارود کچھ کم کردينا ميں تو اس شدت سے پھٹا ہوں کہ جنت سے بھی آگے نکل گيا ہوںـويسے اب آپکو جان جوکھوں پر ڈال کر ايک سروے کرنا چاہئيے کہ کتنے لوگ انکو ہيرو مانتے ہيں

  • 11. 18:42 2010-02-16 ,حسن عسکری :

    صاحبان، کچھ لوگ يہاں کہہ رہے ہيں کہ غير ملکی طاقتيں ان کودہشتگرد بنا رہی ہيں۔ لہذا يہ جو کم سن حملہ آور جو کچھ کر رہے ہيں يہ سب بھی عالمی سامراج ان سے کروا رہا ہے۔ درست کہ استعمار سے آپ توقع بھي کيا رکھ سکتے ہيں مگر ميرا ايک سوال ہے اگر مجھے کوئی غير ملکی غلط آدمی کہے کہ تم سور کھا لو تمہيں ايک لاکھ روپيہ انعام ملے گا بصورت ديگر مجھے دس ڈنڈے بھي پڑھ سکتے ہيں۔ کيا خيال ہے اگر ميں عام سا مسلمان بھی ہوں تو کيا ميں سور کھا لونگا؟ ہرگز نہيں۔ چليں، اگر کوئی غير ملکی مجھے کہے تم جا کر اپنے ايک شريف مسلمان ہمسائے کے گھر سے اسکی بيوي يا بچي کے زيور چرا کر مجھے دے دو اور ايک لاکھ لے لو۔ اگر ميرے دل ميں ذرا سي شرافت ہے کيا ميں ايسا کروںگا؟ ہر گز نہيں۔ اگر کوئي غير ملکی مجھے کہے تم اپنے ماموں کے گھر ميں پالے جانے والے کبوتر يا کتا يا اسکی بکری کو مار دو تو کيا ذرا سی انسانيت مجھے ايک لاکھ کے بدلے ميں ايسا کرنے دےگی؟ ہر گز نہيں۔ پھر يہ کس درجے کی گھٹيا ذہنيت اور نفسياتی و روحاني بيمارلوگ ہيں جو کسی بھی عذر سے اپنے ديس کے لوگوں، ہمسائيوں، رشتہ داروں اور خواتين، بچوں، مريضوں تک کو مار کر راحت محسوس کرتے اور انہيں خون ميں لت پت ديکھ کر تسکين پاتے ہيں۔ اور اس سے بڑھ کر ان سياہ کار اور مکروہ لوگوں کے بارے ميں کيا خيال ہے جو انہيں شہ ديتے ہیں، انہيں مجاہد کہتے اور لائق جنت سمجھتے ہيں، ان کو تھپکياں ديتے ہيں، مسجدوں، مدرسوں اور رحمت دو عالم کے ممبر و محراب ميں بيٹھ کر جہاں سے تو دکھی انسانيت کو عافيت ملنی چاہيے تھے۔ تو جناب جب تک ممبر و محراب پر حقيقی محمدی اسلام والے شرفاء نہ آئينگے تب تک يہ دہشت گرد بھی پيدا ہوتے رہينگے اور غيروں کی يلغار کے سامنے آپ ايک مزبوط دفاعی نظام بھی کھڑا نہيں کر سکيں گے، بلکہ قرآنی الفاظ ميں ہماری ہوا اکھڑ جائے گی اور دنيا ميں عزت و شوکت سے بھی محروم رہينگے۔

  • 12. 19:06 2010-02-16 ,آر ايس شکيل :

    پاکستان کے اکثر صحافی يا عام لوگ بڑی شدد سے شدت پسندوں کا دفعاع کرتے ہوئے کہتے ہيں آخر امريکہ نے افغنستان پر حملا کيوں کيا؟ نہ امريکا افغنستان پر حملا کرتا نہ پاکستان ميں شدد پسندی ہوتی نہ خود کش حملے ہوتے اور يہ کہ پاکستان غيروں کی جنگ سے الگ ہو جائے تو کم سے کم پاکستان ميں امن ہو جائےگا۔ پہلے سوال کا جواب يہ کہ امريکا نے افغنستان پر حملا اس ليے کيا کہ القاعدہ ساری دنيا ميں اور خصوصاً امريکا ميں دہشت گرد حملوں کا باعث بنی اور حملوں کی منصوبہ بندی افغنستان میں ہوئی، يہ کيسے ہو سکتا ہے کہ کوئی آپ کے گھر پر حملا کرے اور آپ چپ رہيں۔ امريکا نے دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کيا، جو نہ مانا گيا، نتيجے کے طور پر افغنستان پر حملا ہوا، دہشت گردوں نے اتحادی فوج کا جانی نقصان کيا يا نہ کيا البتہ پاکستانی فوج اور عوام کو خودکش حملوں کے ذريعہ بے پناہ نقصان کيا، حيرت کی بات ہے جنگ امريکہ کےساتھ اور حملا اپنے ہی ملک کی معشيت اور معصوم عوام پر اور سب سے حيرت انگيز بات يہ کہ يہی خود کش بمبار، ہمارے اپنے قاتل، پاکستان کی اسلام پسند قوم کے ہيرو بن گئے اور کوئی ان لوگوں کا اصل روپ دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو تو امريکہ کا ايجنٹ بن گيا!

  • 13. 19:44 2010-02-16 ,علی گل ، سڈنی :

    نوے کی دہائی سے پہلے جب مسلمان دہشت گردی ميں ملوث نہيں تھے تو غير مسلموں کا دائرہ اسلام ميں آنے کا رجحان کافی زيادہ تھا جو کہ اب ان ہيروز کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب تو کسی کو يہ ہی بتاديں کے ميں مسلم گھرانے سے ہوں تو وہ پہلے سر سے پاؤں تک ديکھتا ہے کہیں اس کے پاس کوئی غلط چيز تو نہيں اور پھر جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ ان ہيروز نے شريف مسلمانوں کو بھی بدنام کرديا ہے اور شايد وہ دن دور نہيں جب مسلمان بھی غير مسلم معاشرے کی سختيوں سے بچنے کے ليے ڈيوڈ، راجر، پيٹر يا مائيکل بن جائيں۔ آخر عزت سے جينا ہی ہر کسی کی اولين ترجيح ہوتی ہے۔

  • 14. 22:43 2010-02-16 ,DR.Ghulam Shabbir Rana :

    حبیب جالب نے کہا تھا
    محبت گولیوں سے بو رہے ہو
    وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
    گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
    یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
    آج ہم سرابوں میں بھٹک رہے ہیں۔زندگی کے تلخ حقائق پر ہماری نظر نہ ہونے کے برابر ہے۔ہماری خام خیالی،مفروضے اور مافوق الفطرت تخمینےہمیں معروضیت سے دور لے جانے کا سبب ہیں۔

  • 15. 22:54 2010-02-16 ,Ansa Kausar Perveen Rani :

    کوئی روکے کہیں دست اجل کو
    ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
    دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مسموم اثرات نے قومی زندگی کے تمام شعبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سماجی اور معاشرتی حوالے سے دیکھا جائے توہمارا رویہ عمومی طور پر متشددانہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ امن و آشتی کی فضا عنقا ہوتی چلی جا رہی ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں خون انساں کی ارزانی پر ہر آنکھ اشک بار اور شخص دل فگار ہے۔
    دست قضا نے جیسے درانتی سنبھال لی
    اب کے سروں کی فصل سے کھلیان پٹ گئے

  • 16. 2:40 2010-02-17 ,مصد ق خا ن نيا زی ميا نو الی :


    صاحب جی، آپکا بلا گ پڑھا، معزرت کے ساتھ يہ بلاگ نمکين کم اور تنقيد خوامخواہ لگ رہی ہے کہ اس ميں آپ نے دلائل کے پھول نہيں بکھيرے، بس تجزیئے کی جگالی کرنے کی کو شش کي۔ جناب والا، آپکی يہ بات درست کہ خودکش بمبار کم عمر ہوتے ہيں، بالکل ٹھيک کہا ليکن نشہ يہ کہاں کی تان اٹھا کے لائے ہيں؟ کسی کے ساتھ اختلاف ہو سکتا ہے ليکن پروپيگنڈا تو کم ازکم آپکو زيب نہيں ديتا۔ ليکن انہیں آگ ميں دھکیلنے والے آقا کا نام کيوں بھو ل گئے؟ اس بات کی مجھے سمجھ نہيں آتی کہ بيس تيس پہلے لڑنے والے جن کو خود امريکہ پاکستان سعودی عرب اس خطے ميں لائے تھے پہلے مجاہد اور اب دھشتگر د کيسے ہوگئے؟ مقام وہی، افراد وہی ہتھيار وہی جو انکل سام نے دیے تھے، بس بدلا تو صرف دشمن اور نام۔

  • 17. 2:52 2010-02-17 ,ہيہعاکف مختار :

    کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آٓزمائی
    ہم ہی قتل ہو رہے ہیں، ہم ہی قتل کر رہے ہیں

  • 18. 4:45 2010-02-17 ,marhaba :

    حنیف صاحب: چاہے وہ ہندوستان کا مسئلہ ہو یا پاکستان کا، افغان کا ہو یا کشمیر کا، میرے خیال میں آج زمانہ بدل چکا ہے۔ کسی بھی پاور یا سوپر پاور کے لئے یہ صحیح نہیں کہ وہ طاقت اور پاور کے ذریعہ کسی کو درست کرسکے۔ صرف ایک ہی صورت ہے جس سے دنیا میں امن و امان کو بحال کیا جا سکتا ہے، وہ ہےصلح و آشتی، یعنی آپس میں ناجنگ معاہدہ کر کے مواقع کار کو استعمال کرنا۔ اس کے علاوہ جو طریقہ بھی استعمال کیا جائے گا وہ یقیقناً دونوں کے لئے تباہ کن ہوگا، اس سے دونوں ملکوں کی معیشت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑےگا۔ اسلئےیہی ایک تجویز ہے جو دنیا میں امن و امان قائم کر سکتی ہے۔ مثال کےذریعہ کہنا چاہوں تو یوں کہوں گا بچوں کا نوجوانی کی عمر کو پہنچنا۔ بچے جب نوجوانی کی عمر کو پہنچتےہیں تو وہ کسی بھی طاقت سے نہیں ڈرتے، بلکہ وہ ہر طاقتور کا سامنا کرنے کیلئے اپنی جان کو ہتھلی پر رکھ لیتے ہیں۔اسی طرح آج ہر ملک اس پوزیشن میں ہے یا آرہا ہے کہ وہ کسی سے بھی مزاحمت میں پیچھے نہ رہے،ی عنی دفاعی کاروائی کا خود کو اہل بنا رہا ہے۔ ایسی صورت میں طاقت کے ذریعہ مسائل کا حل نکالنا گویا اور مزید مسائل پیدا کرنا ہے اس کے سوااور کچھ نہیں۔۔۔

  • 19. 14:56 2010-02-17 ,shams :

    بھائی جان، ہم کشمیری پاکستان کی حکومتوں کے شکر گذار ہیں۔ سن انیس سو سنتالیس میں انہوں نے قبائلی بھیجے جنھوں نے کشمیر میں لوٹ مار، قتل اور خواتین کو اغوا کیا۔ ان کا آج تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ کیا کشمیری خواتین مال غنیمت تھیں۔ سن نوے کی تحریک کے بعد لشکر، جیش، جہاد اسلامی، حرکت اور پتہ نہیں کون کون کشمیر میں بیجھے گئے جھنوں نے کشمیر میں وہی کام شروع کیے جو قبائلوں نے کیے۔ یہ سب اسلام کے نام پر ہورہا۔ اب محترم حافظ سعید کہتے ہیں انڈیا مجھ سے بات کرے میں حل بتاؤں گا کشمیر کا۔ ان سے کوئی پوچھے وہ ہیں کون۔ کشمیر کشمیریوں کیا ہے۔ خیر ایسے لوگوں کو کبھی شرم نہیں آئے گی۔ ساٹھ سال میں شرم نہیں آئی اب کیا آئے گی۔ا ن کے منہ کو خون لگ گیا ہے۔

  • 20. 15:37 2010-02-17 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ایسے قارئین معہ خاکسار جن کے تبصرے موڈریٹر صاحب ثبوتے کھا رہے ہیں یا کانٹ چھانٹ کی جا رہی ہو اور یا پھر مکمل طور پر شائع نہیں ہو رہے ہیں، دل کڑا رکھیں اور ذہن میں رکھیں کہ تبصرے شائع نہ ہونا واضح طور پر بلواسطہ ایک ‘پیغام‘ ہے جس کا مطلب ہے کہ ‘بندے بن جاؤ!‘۔ لہذا ایسے گراں قدر قارئین سے التماس ہے کہ وہ محض اپنے تبصرے شائع کروانے کی خاطر اپنی ‘خو‘ کو نہ چھوڑیں، باالفاظ دیگر اس ‘پیغام‘ کو ‘رَد‘ کر دیں اور سیلف کانفیڈینس کے حصول کے لیے باور رکھیں کہ بقول شاعر:
    ‘مَیں اپنے حق کے سوا مانگتا اگر کچھ اور
    تو میرے حرفِ دُعا میں اثر نہیں رہتا‘

  • 21. 16:03 2010-02-17 ,Irshad :

    آپ وہاں comments پر حیران ہیں میں یہاں والے commets پر حیران ہو ...میں آپ کے تجزیے سے سو فیصد متفق ہوں

  • 22. 17:49 2010-02-17 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    جب نہ صرف بیک وقت بلکہ خالصتآ ملائئیت و آمریت کی پیداواریں جمہوریت کا علمبردار بن سکتی ہے، جب سپریم کورٹ پر دن دھاڑے مسلح حملوں میں مرتکب لوگ اسی سپریم کورٹ کے کسی فیصلے آنے سے پہلے ہی اس فیصلے کے حق میں ریلی نکالنے کا فیصلہ کر چکی ہو، جب اپنے ہی پیدا کیے ہوئے، پالے پوسے ہوئے ’طالبان‘ کو دنیا کا سب سے بڑا ’خطرہ‘ قرار دے دیا جائے، جب ’جناح پور‘ کے خالق پاکستان پر مر مٹنے کے بیانات داغتے ہوں، جب ’پی سی او‘ کو ’آبِ زم زم‘ سمجھ کر پینے والے جج اسی ’پی سی او‘ کو ’آئین‘ کی خلاف وزری سمجھ کر خود کو ’آئین‘ کا ’مرید‘ ظاہر کر رہے ہوں، جب وہی میڈیا جو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی اور چاروں صوبوں میں واحد یکساں مقبول سیاسی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی، پی پی کے شریکِ چئیرپرسن کی زیرِصدارت صدر کے انتخاب کے اجلاس کے فیصلہ پر بریکینگ نیوز ’زرداری کا فیصلہ صدر مَیں؟‘ چلائے لیکن ججز بابت چیف جسٹس کی سفارشات کو نہ مانتے ہوئے صدارتی نوٹیفکیشن معطل کر دے اور یہی میڈیا ’چیف جسٹس کا فیصلہ جسٹس میرے؟‘ کی بریکینگ نیوز چلانا ’گناہ کبیرہ‘ سمجھتا ہو، جب بھگت سنگھ، لالہ لاجپت رائے، رنجیت سنگھ وغیرہ جیسے غیرمسلموں کی انگریزوں سے آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کو نصاب تعلیم میں محض اس وجہ سے نہ جگہ دی جائے کہ وہ غیرمسلم تھے، دوسری طرف ہندو مسلم تضاد کو بڑھانے اور دو قومی نظریہ پیش کرکے صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہوئے ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کرکے، ان کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر، برصغیر کی قومی آزادی کو روکنے والے اور انگریزوں کو طویل قیام کرنے کا موقع دینے والے، اردو ہندی تنازعہ کی بنیاد ڈالنے والے کو ’ہیرو‘ لکھا جاتا ہو۔۔۔ تو ایسے میں آج اگر الٹا پہیہ گھوم رہا ہے تو اس میں کوئی حیرانی والی بات نہیں کہ یہ الٹا پہیہ تاریخ سے ہی گھومتا آ رہا ہے۔۔۔

  • 23. 5:16 2010-02-18 ,جعفر :

    ڈاکٹر کے پاس پیٹ درد کا مریض بھی جاتا ہے جی تو ڈاکٹر اس سے پوچھتا ضرور ہے کہ کل کیا کھایا تھا
    مطلب یہ ہے کہ جی اس سارے ڈفانگ کی کوئی وجہ تو ضرور ہوگی
    آج سے دس سال پہلے کیوں ہمارے بچے خود کش نہیں تھے؟
    لفظی چھترول کرنی تو بڑی آسان ہے جی، آپ نے بھی کردی ہے
    اصل وجہ کھوجنے کی کوشش بھی کریں کبھی

  • 24. 12:16 2010-02-18 ,md.zishan :

    دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مسموم اثرات نے قومی زندگی کے تمام شعبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سماجی اور معاشرتی حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارا رویہ عمومی طور پر متشددانہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ امن و آشتی کی فضا عنقا ہوتی چلی جا رہی ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں خون انساں کی ارزانی پر ہر آنکھ اشک بار اور شخص دل فگار ہے۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔