باتیں معجزوں کی
پاکستان میں بم دھماکوں، خود کش حملوں، مہنگائی، بیروزگاری، غربت، جرائم میں اضافے کے ذکر اور بے بسی کے احساس اور کبھی کبھار امید دلانے والی باتوں کے ساتھ ساتھ اس بار معجزوں کے بارے میں بھی کثرت سے سننے کو ملا۔
حال ہی میں کھاریاں کے قریب ایک گاؤں میں اپنے عزیزوں سے ملنے گیا تو بتایا گیا کہ بڑی تعداد میں لوگ چکوال جا رہے ہیں جہاں ایک غریب خاندان کے گھر میں معجزہ پیش آیا ہے۔
قصہ کچھ یوں بیان کیا گیا کہ وہاں ایک غریب گھر کی لڑکی نےمیلاد کروانےکی خواہش ظاہر کر دی۔ اس کے گھر والوں کی اتنی استطاعت نہیں تھی، لیکن پھر ان لوگوں نے اپنی واحد چیز ایک بکری بیچ ڈالی اور جو انتظام ہو سکتا تھا کیا۔
میلاد کے دن ان کے گھر کوئی بھی نہیں آیا۔ لڑکی یہ برداشت نہ کر سکی اور انتہائی شدت سے خدا کے آگے روئی کہ وہ غریب ہیں اس لیے ان کے گھر کوئی نہیں آتا۔ مجھے بتایا گیا کہ اس کا رونا ابھی جاری تھا کہ گھر میں روشنی ہوئی اور ساتھ ہی زمین پر پاؤں کا نشان بن گیا جیسے وہاں سے کوئی گزرا ہو۔ میری ایک عزیزہ نے بتایا کہ جن کے گھر کوئی نہیں آتا تھا ان کے گھر خدا کی محبوب ہستی خود تشریف لے آئی۔
ایک اطلاع کے مطابق پاؤں کے نشان کو شیشے سے ڈھانپ دیا گیا تھا اور قریبی علاقوں سے لوگ جوق در جوق اسے دیکھنے جا رہے تھے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتوں نے زمین کے اس ٹکڑے کے لیے بھاری رقم کی پیشکش کی جو چکوال کے قریب واقع اس گاؤں کے لوگوں نے ٹھکرا دی۔
جب مجھے یہ قصہ سنایا جا رہا تھا قریب ہی بستر پر لیٹی ایک بچی نے، جو کئی سالوں سے بیمار ہے اور جس کی زندگی اس کے بستر تک محدود ہے، کہا کہ یہ سب فراڈ ہے لیکن اسے یہ کہہ کر چپ کروا دیا گیا کہ وہ پہلے ہی مشکل میں ہے اور اس طرح کی باتوں سے مشکل مزید لمبی بھی ہو سکتی ہے۔
وہاں سے فارغ ہو کر میں اپنے گاؤں مچھیانہ پہنچا تو وہاں بھی معجزے کی اطلاع پہنچ چکی تھی اور بتایا گیا کہ کچھ لوگ چکوال جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
میلادوں کے لیے تیار کیے گئے حلوے اور کھیر پر اللہ اور پیغمبر اسلام کے نام ظاہر ہونے کے واقعات بھی سننے کو ملے۔ جہاں ان واقعات کو سنجیدگی سے لینے والے موجود تھے وہیں ان پر شک کرنےوالے بھی تھے کہ بعض اوقات ایک گرم چیز پر اگر بعد میں چینی یا کسی اور شے کا اضافہ کیا جائے تو اس کی الگ طے بن جاتی ہے جس پر بعض اوقات تحریر کا گمان ہو سکتا ہے۔
اسی طرح معلوم ہوا کہ چند روز قبل چاند پر بھی کچھ مقدس نشانیاں نظر آئی تھیں۔ لوگ موبائیل فونوں کے ذریعے ایک دوسرے کو اس کے بارے میں اطلاع دیتے رہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اس گھڑی کا فائدہ اٹھا کر خصوصی دعائیں مانگ سکیں۔ ہمارے گھر یہ اطلاع نہیں پہنچی جس پر افسوس کا اظہار بھی کیا گیا۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم اسد علی چوہدری صاحب، آداب عرض! اس بلاگ کو دیکھ کر آپ کی خیر خیریت کا علم ہوا جس سے آپ کی طویل غیر حاضری پر مختلف قسم کے وسوسوں سے جان چھوٹی جو کہ خاکسار کافی عرصہ سے محسوس کر رہا تھا۔ کھاریاں کے واقعہ اور ‘معجزات‘ کو مدِ نظر رکھ کر یہ کہا جائے گا کہ ‘پنجابی طالبان‘ کوئی خیالی نہیں ٹرم نہیں ہے بلکہ اس میں تھوڑا یا زیادہ حقیقت کا عنصر ضرور ہے۔
‘محبت کبھی یہ معجزہ بھی دکھائے کہ
سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے‘
جناب آپ خود وہاں تشریف لے جا کر دیکھ لیتے اتنا بڑا کالم لکھنے سے پہلے تا کے کچھ تصدیق ہو پاتی
بلاگ تو پڑہ ليا يہ تو وہ بات ہوئی کہ ان کو وہ بات ناگوار گٰٰذری جس کا سارے فسانے ميں ذکر نہ تہا ِ ميں يہ دعوا تو نہيں کرتا کہ قلم اسد سے جو کچہ نکلا ہے وہ سب کچہ ميں سمجہ چکا ہوں ليکن يہ عرض ضرور کروں گا کہ وہ بات جو صاحب قلم کرنا چاہتے تہے وہ تو کر نہيں پائےـ ايسے معجزآت کے ذکر اٰذکار تو سننے کے ہم عادی چکے ہيں افسوس کی بات تو يہ بہی ہے کہ اکثر يہ کہا جاتا ہے کہ جاہل لوگ ان پر اعتبار کر ليتے ہيں ليکن پاکستان ميں جس قدر پڑہا لکہا طبقہ ان رسموں ان معجزات کی آس ميں بيٹہا نظر آتا ہے اتنے ان پڑہ لوگ بہی نہيں کہ بس يہ سوچتے رہيں کہ کوئي آسمان سے تجلی ہوگی اور تمام کام آسان ہو جائيں گے بہرحال آپ کو جو کہنا تہا وہ کليئر کرتے تو ٹہيک تہا
اچیاں لوکاں دیاں اچیاں گلاں
میں وِچ ایویں بولاں !
اسلا م کے نام کو ايکسپلائٹ کرکے غريب عوام کو ريلکس دينے کا عمل بر صغير ميں بھت پرانا ھے„„بے چارے ان پڑھ„دين سے بے بہرہ اور مزھب کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے والی تکون پاکستان ميں کافی راسخ ھوچکی ھے„„مزھبی جاگيردار عوام کو بے وقوف بناۓ اپنی محل نما کوٹھيوں ميں مقيم اور مريدوں کو واقعا ت ميں الجھا ديا ھے„دوسری طرف عوام جب مھنگائی „بےروزگاری سے تنگ اکے ان لوگوں سے مسيحائ مانگتی ھے تو نتيجہ پھر مزھبی وڈيرہ پن ميں نکلتا ھي„„اسلام ميں جس چيز کا تصور نيھں يہ لوگ اسی ميں تلاش کرتے ھيں
دنيا ميں اتنے بڑے بڑے ميجک شو (کرتب کرنے والے) موجود ہيں جو مختلف چيزيں مثلا„ جانور مختلف رنگوں کے رومال بناکر يا چيزيں غايب کرکے دکھاديتے ہيں۔يہ واقعہ کچھ لوگوں کے ليۓ تو معجزہ ہوسکتا ہے جو ذہن پہ زيادہ زور نہيں ديتے ليکن کرتب دکھانے والے اس سے بہتر آيٹم پيش کرسکتے ہيں۔
اسد صاحب!جن عوامل کے ہمراہ آپ نے بلاگ کا آغازکيا ہے انکی مسلسل موجودگی کے تناظر ميں ذہنی دباو و خلفشار کی وجہ سے نفسياتی مسائل جنم ليتے ہيں۔ مہنگائی و غربت کے مارے افراد کو تو چاند بھی روٹياں ہی نظر آيا کرتی ہيں۔ شيزوفرنيا نامی ذہنی بيماری ميں يہ کيفيت عام ہوتی ہے کہ مختلف انواع و اقسام کی اشکال و شبيہات نظر آتی ہيں۔عام آدمی اسے آسيب،سايہ يا جادو ٹونہ کا نام ديتے ہيں جب کہ ماہرين طب اسے ذہنی خلل و عدم توازن قرار ديتے ہيں۔ نفسياتی مريض اگر دعوی کرے کہ اس نے يہ سب کچھ ديکھا ہے تو کمزور عقائد کے حامل تو مان جاتے جبکہ ديگر اس سے انکاری ہوکر اس کا تمسخر اڑاتے ہيں۔ کم و بيش يہی صورتحال ہے جہاں کا ذکر آپ نے کيا ہے۔اس بات کی جانچ کرنی چاہيے۔بات پھر وہی ڈھاک کے تين پات والی ہے کہ بنيادی جيزوں کی طرف توجہ دينی چاہيے
۔۔ساون کے اندھے کو سب ہرا نظر آتا ہے۔۔۔
ميرا تعلق چونکہ چکوآل سے ہے لہذا ميں وہاں کی معاشرت اور لوگوں کے عقائد کے پيش نظر يہ سمجھ سکتا ہوں کہ اس ”متبرک” نشان پا کی کيا اہميت ہو گي، چکوآل کے علاقے ميں ان جھيلوں اور قدرتی چشموں نے بھی کافی شہرت پائ تھی جنکا مقدس پانی خارش سے لے کر جذآم اور جنکی مٹی شوگر سے لے کر کينسر تک ہر مرض کے علاج کيليے اکسير سمجھی جاتی ہے-ايک کرآماتی شخصيت تو اپنی جادوي”پھونکوں” سے ہيپاٹايٹس جيسے مرض کو بھی شکست دے چکے ہيں- مہنگا ولايتی علاج نہ کرا سکنے وآلے غريب لوگ توہم پرستی ،معجزوں اور کرآماتوں پر پختہ يقين رکھتے ہيں -
مجھے آپ ک کالم میں اس بات کی سمجھ نھیں آئی کہ آپ نے کہنا کیا چاہا ہے؟ آپ کا کالم پڑھ کر کیا سمجھا جاےَ کہ یہ لوگوں کی جہالت ہے؟ یا مذھبی لگائو اتنا ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے سب یقین کر جاتے ہیں؟
اسد صاحب ميں آپکو اپنا سيل نمبربھيج ديتی ہوں کسی دن چاند سورج ميں کوئی با با شابا نظر آئے تو فورا مجھے اطلاع کرنی ہے اگر اطلاع نہ کی تو سوچ ليں- - -
ويسے معجزات ميں پيغمبراسلام يا کسی ولی کا نام استعمال کرنا انتہائی حماقت والی بات ہےکيونکہ دنيا ميں اور بھی بڑے بڑے جرائم ہوتے ہيں بلکہ آج کے کسی بھی اخبار کو تفصيل سے پڑھيں تو گھناؤنے جرائم کی کئی خبريں مليں گی وہاں معجزات کيوں نہيں ہوتے يا اللہ کی محبوب ہستی يا اوليا کرام کی آمد کا احساس کيوں نہيں ہوتا۔ايسے معجزات ميں بعض کرتب کے ماہر نيم ملا شامل ہوتے ہيں جو سادہ لوح افراد کی معصوميت کا فايدہ اٹھاکر کاروبار چلاتے ہيں اور اگر آپ بالفرض ان کے کسی معجزہ ميں نقص نکاليں تو آپ کو کافر کہ کر بھگنے پہ مجبور کرديتے ہيں اور بيچارے معصوم لوگ اگر حقيقت سمجھ بھی جائيں تو ان کے ڈر اور کچھ خامخواہ کے جذبہ ايمانی کی وجہ سے جی ہاں کرکے ايسے معجزات کو سچ ثابت کر ديتے ہيں۔اصل ميں يہ معجزات کسی قوم کی زبوںحالی کی نشاندہی کرتے ہيں۔
یہ سب جہالت کی نشانیاں ہیں۔ اللہ سب کو عقل دے۔ آمین
جناب اسد صاحب آپ نے ان نام نہاد مجاہدين کے خوابوں کے قصے نہيں سنے جن ميں عظيم شہداء ان کے کارناموں پر يا مسلمانوں کے قتل عام پر شاباش ديتے تھے
يا خود کشی کرنے والے خود کش فدائين کی باتيں نہيں سنی جن کو جنت کی سير ہوجاتی ہے اور ان سے اللہ کی محبوب ہستی آکر کہتی ہے کہ جلدی روانہ ہو ہم جنت ميں تمارا انتظار کر رہے ہيں۔ ان کی ان باتوں پر يقين کرنے والے بھی ہيں اور اس عمل کو علماء کرام حرام بھی قرار ديتے ہيں ۔
اب ان باتوں کو جن کو آپ نے معجزہ کہا دراصل يہ کرامات کہلاتی اور اکثر ان کا ظہور ہوتا رہا ہے ان کرامات کے سہی يا غلط ہونے کے بارے ميں دو رائے ہوسکتی ہيں ان کرامات کو جانچنے کے کچھ طريقے ہيں مثلاً ذاتی مفادات نہ ہوں،فرقہ ورانہ سوچ نہ ہو ، کسی انتشار فساد کا باعث نہ ہو ، خاص و عام ہر کوئی اس سے فيض ياب ہو ۔
بلاگ پڑھنے کا واقعی مزا آیا ۔ پر سمجھ نہیں آئی کہ آپ نے جہالت کو معجزہ کہنا چاہا ہے یا معجزے کو جہالت ۔
سبحان اللہ
سنا ھے آپ ھر عاشق کے گھر تشريف لاتے ھيں
کسی دن ميرے گھر ميں بھی چراغاں ھو جائے يا رسول اللہ
هم كو تو اس بلاك سے استعمار كی وه بو آنےلگی جيسے استعمار اس دفعه وطن عزيز بر صوفيزم كا راج لانے والى هے .
ہم پشاور کے باسی ہیں۔ اصل پشاور والے ہزارہ کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔ ہم پختونخواہ کے نظریے اور اے این پی کی سیاست کو رد کرتے ہیں۔
میرے خیال میں تو یہ سب کچھ کوئی اتنا زیادہ غیر متوقع نہیں ہے۔
کیونکہ ہم جس دور میں گزر رہے ہیں اس میں ہم ویسے تو دنیا سے پیچھے ہیں اس لیے ہم اپنے آم کو مطمئن کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو ہی حق پر ثابت کرنے کے لیے اس طرح ہر چیز پر آ۔نکھیں بند کرکے اعتماد کر لیتے ہیں بشرطیکہ اس میں ہمیں اپنے لیے دنیا پر اپنی برتری محسوس ہو۔ آخر یہ واقعات صرف پاکستان میں ہی کیوں ہوتے ہیں۔
اسد صاحب کیا یہ بھی معجزہ ہے کہ لوگ اشعار کا حلیہ بگاڑیں جس طرح کسی صاحب نے قتیل شفائی کے شعر کا حشر کیا ہے۔ صحیح شعر کچھ یوں ہے: یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے۔۔۔کہ سنگ تجھ پہ گریں اور زخم آئے مجھے۔
براہ مہرباني گزشتہ عرضداشت رد کرکے تصحيح شدہ درج ذيل تحرير قبول کيجيۓ گا - شکريہ -
چودھری صاحب ، بعض عوامل فہم انسانی کی حدود سے باہر نظر آتے ہيں - ان کا جواز سمجھ ميں نہيں آتا - ميں معجزات پر يقين رکھتا ہوں - قارئين کرام اپنے ذرائع سے تصديق کر سکتے ہيں - مشہد ميں امام رضا اور دمشق ميں بی بی زينب سلام اللہ عليہا کے روضوں پر مفلوج اور اپاہج لوگ لائے جاتے ہيں جو شفاياب ہو کر جاتے ہيں - اب اسےکيا کہيۓ گا - زائرين کے لۓ معمول کي بات ہے ليکن ميڈيا يہ خبر نہيں دے گا -
اس کو کہتے ہیں دین سے دوری۔ اور اتنی مہنگائی بیروزگاری معےن بھی مولوی حلوہ کا روزگار اور حلوہ پکا۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ ہمارے ملک میں بلخصوص اور باقی دنیا میں بالعموم توھم پرستی پائی جاتی ہے۔
مگر اس بنیاد پر معجزے یا کرامت کے وجود سے انکار مناسب نہیں۔ مابعدالطبعیات ایک ایسا باب ہے جس کی تائید نا صرف مزہب کرتا ہے بلکہ قدیم و جدید سائینسی تحقیقات بھی شاہد ہیں۔
کسی خبر یا دعویٰ کو بغیر کسی خاص تحقیق یا گہری آشنایی نہ ہونے کے سبب ، قبول یا رد کرنا نہایت آسان ہوا کرتا ہے۔
ہمارے گھر ميں تو ہے ہی 24/7 جن بابا جو خود ايک چلتا پھرتا معجزہ ہے اسماء آپ جگہ بتا ديں وہ با باآجايئں ”گے” اپنی فراری پر، اچھا طريقہ ہے گھر ميں مجمع لگا کے مفت کے پھل فروٹ کھانے کا
چند معزز قارئین کے تبصروں کا مطالعہ کرنے کے بعد خاکسار کو معلوم ہوا کہ قارئین بلاگ ہذا کا منشاء و مطلب و حاصل کلام ڈھونڈھنے کی سعی کرنے کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کر سکے اور نہ ہی یہ معلوم کر سکے ہیں کہ آخر چوہدری صاحب کہنا کیا چاہتے ہیں؟ اس بابت جہاں تک خاکسار کا خیال ہے، چوہدری صاحب نے بطور مشاہدہ کے ایک ‘حساس موضوع‘ کو سامنے لا کھڑا کیا ہے اور اپنے مشاہدہ بارے اپنے ذاتی تاثرات اس وجہ سے لکھنے سے گریز کیا ہے تاکہ کسی قسم کے متوقع ‘فتویٰ‘ سے بچا جائے کہ موضوع بہت ‘حساس‘ نوعیت کا ہے۔ عین ممکن ہے کہ چوہدری جی نے اس بات کا شعور محمد حنیف صاحب کے بلاگز کی سیریز بعنوان ‘مودودی دا کھڑاک‘ پر معزز قارئین کے تبصرے مطالعہ کر کے حاصل کیا ہو۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ کم از کم پاکستان میں متنازعہ امور کو بیان کرنے کا راستہ صرف ‘مشاہدہ‘ لکھ دینا ہی ہے کیونکہ متنازعہ موضوعات پر ذاتی قسم کی رائے یا جوابات اکثر اوقات فتوے کی صورت اخیتار کر لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اپنے چوہدری جی نے اپنی رائے کی بجائے معلومات، مشاہدات، کوائف، شواہد اور حقائق کو بولنے دیا ہے۔
یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں۔ لوگ اب کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ڈالروں کے لیے۔
اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔ بیشک چکوال کا واقعہ سچا بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی کام مشکل نہیں۔ صرف لوگوں کو جاہل اور تواہم پرست سمجھ کر یہ مزاحیہ بلاگ لکھنا ضروری نہیں تھا۔
جناب اس حکومت میں آئے روز نئے معجزے ہو رہے ہیں۔ 'خیبر پختون خواہ' کیا معجزے سے کم ہے۔ ابھی دو اور معجزے یعنی 'سرائیکستان' اور 'ہزارہ پوٹھوہار' بھی متوقع ہیں۔
اللہ سب کو عقل دے۔ آمین
جس ملک میں بجٹ کا مشکل سے ٢% تعلیم اور صحت پر خرچ کیا جاتا ہو وہاں یا تو ایسے 'معجزے' ہو سکتے ہیں یا خود کش حملے!
اسد صاحب ميں بھی کوئی زيادہ ان چيزوں پر يقين کرنے والا نہيں تھا کہ اگر بات مان بھی ليں تو دل کيسے يقين کرے- مگر ايک واقعہ ميں نے خود اپنی آنکھوں سے دمشق ميں موجود سيدہ زينب بنت فاطمہ کے مزار پر ضرور ديکھا- يہ فروری 2008 کی بات ہے جب حرم سے متصل مسجد ميں نماز مغرب کے بعد چوتھے روز ميں سلام کرنے حرم پہنچا تو ديکھا کہ لوگ ماتم و گريہ کر رہے ہيں رش کيوجہ سے مشکل سے ميں اندر پہنچا اور ديکھا کہ ہر چند لمحات بعد ضريع مقدس پرمختلف اطراف اور اوپر سے نورانی اشياء کي مسلسل آمد و رفت ہو رہی ہے- ايک عجيب روشنی کا منظر جو کبھی ميں نے اپنی زندگی ميں پہلے نہ ديکھا يہ سلسلہ اندازا گھنٹہ بھر چلتا رہا اور پھر ختم ہو گيا اتفاق سے ميرے پاس ويڈيو کيمرا تھا سو ميں نے ريکاڈ کر ليا اور کئي بار اسے ديکھا- جبکہ چلنے اوربولنے سے پيدائشي معذورصحتياب ہوتے 2004 ميں مشھد حرم امام رضا اور مارچ 2008 ميں کربلا معلي حرم حضرت عباس پر ميں نے خود ديکھے- سو کچھ واقعات سچے ہو بھی سکتے ہيں-
بادشاہی مسجد ميں نالين پاک کا سائز عام آدمی کے پاؤں کے برابر تھا جبکہ يہ نام نہاد معجزہ تفريباً 8-9 فٹ لمبا ھے- ايسا کيوں؟
اس بلاگ پر اتنے تبصرے يہ بھی معجزے سے کم نہيں