آتش فشاں یا قیامت کے آثار
اگر آپ نے آئس لینڈ میں آتش فشاں سے دُھواں اُگلنے کے مناظر دیکھیں ہیں تو کیا آپ بھی میری طرح قدرت کے اس نظام کے بنانے اور بگاڑنے پر سوچ رہے ہیں اور کیا آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال بار بار ابھر رہا ہے کہ کوئی تو ہے جو اس نظام کو چلاتا ہے۔
یہ کیسا آتش فشاں ہے کہ جس نے یورپ کی فضائی حدود کو کئی روز سے انسانوں کے لئے شجر ممنوعہ بنادیا اور روزانہ دو سو ملین ڈالر کا نقصان کردیا۔
آتش فشاں کے مکمل نقصان کا تخمینہ اربوں ڈالر میں ہے جو ایسے وقت ٹیکنالوجی سے لیس جدید ترین ملکوں کو آنکھ بند کرکے اٹھانا پڑرہا ہے جب معاشی بد حالی نے انہیں جکڑ کے رکھا ہے۔
کوئی ان حالات پر اُف نہیں کرسکتا اور نہ کسی پر الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن جہاں لاکھوں مسافروں کے چہروں پر خوف ہے وہیں دنیا کی بڑی ایئرلاینز اس وقت خود کو سنبھالا دینے کے بیش بہا پلان مرتب کر رہے ہیں اور حکومتیں خاموش آسمان کی اُن بلندیوں کو دیکھ رہی ہیں جہاں کالے بادلوں کے مرغولے معلق ہوگئے ہیں۔
بچپن میں مولوی صاحب نے مذہبی تعلیم دیتے وقت قیامت کے آثار کے بارے میں بتایا تھا لیکن ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑے گا اسکی انہیں امید نہیں تھی۔ گوکہ یہ بھی سائنس کی ہی ایجاد ہے کہ اس تباہی کو ہم گھروں میں بیٹھے ٹیلوژن چینلوں پر دیکھ رہے ہیں مگر آئس لینڈ میں آتش فشاں کا پھٹنا جنوب مشرق ایشائی ملکوں میں سونامی یا پاکستانی کشمیر میں زلزلہ آنے کی ہمیں ابھی تک پیشگی اطلاع کیوں نہیں ملتی۔ کہیں یہ ایسی باتیں تو نہیں کہ جن پر صرف اور صرف اُس کا کنٹرول ہے جو کہیں آسمانوں کی اونچائیوں میں بیٹھا ہے جس کے وجود کو یوروپ کے بعض لوگ سرے سے مانتے نہیں اور جو مانتے ہیں اُن کا ایمان مزید پختہ ہوگیا ہے۔
آپ کیا سمجھتے ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
‘قیامت آن تو پہنچی، مگر کسے معلوم
زمیں سے آئے گی یا آسماں سے آئے گی‘
محترمہ آپ کی سوچ بھی درست ہوگی ليکن بندہ کے تجزيہ کے مطابق مغرب کے لوگ اور سائينس دونوں کو يقين ہے کہ دنيا کسی وقت بھی تباہ ہوسکتی ہے اور يہ کہ کسی اور کی تباہی يعنی بگ بينگ کی وجہ سے وجود ميں آئي۔ليکن اس تباہی کے ہونے کو قيامت کہنا يا کوئی اور نام دينا علاقائی سوچ ہوتی ہے ليکن مقصد سب کا ايک ہی ہوتا ہے۔جب ہم يہ کہيں کہ کچھ لوگ قيامت کو نہيں مانتے تو يہ مبالغہ آرائی ہوگی کيونکہ وہ آپ کے انداز سے نہيں مانتے کيونکہ ہماری باتوں ميں مذہبی اختلاف کی بو آجاتی ہے۔اور ميرے خيال ميں اگر مغرب ميں چند ايسے لوگ ہونگے بھی تو ان کی مقدار پاکستان کے ان لوگوں سے قدرے کم ہوگی جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی ايسے عمل کرتے ہيں جيسے ان کا قيامت پہ يقين کامل نہيں۔
بجا کہا
صحیح کہتھی ہے اپ.
لیجئے ایک اور مولوی ... لگتا ہے تبلیغی جماعت کی ناکامی کے بعد اب بی بی سی نے تبلیغی کم کا بیڑا اٹھا لیا ہے الله تبارک و تعالیٰ جزاۓ خیر دے بی بی سی والوں کو
دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی آرھا ھے
مجھے نہیں لگتا کہ قیامت اتنی نزدیک ہے
نعيــــــــــمه !!! آپ تو يه باتيں اس انداز ميں کر رهى هيں جيسے خود آپ کو بهى پورا يقين نهيں هو، يار يه پهى کوئي پوچهنے والى بات هے !!؟؟ ليکن بعض لوگ تو پيغمبروں کے زمانے بهى معجزے ديکه کر اسے جادو کا نام ديتے تهے .
آنکھ والے قدرت کے اس نظارے کو ديکھ کر اللہ جی کو مان رھے ھيں اور سپرپاور کہلوانے والے بےبس لاچار ھوکر اس وحدہ لاشريک کا تماشا ديکھ رھے ھيں۔ وھی خداھے۔قران کہتاھے ديکھو جوديدہ عبرت ھے۔لوگ قدرت کے اس لازوال نظارے کو سمجھيں اور سبق حاصل کريں۔ ھے کوئی جو دنيا کی سپرپاور کی بےبس ديکھ کے دونوں جہانوں کی سپرپاور کی طرف لوٹ آئے„„
نعيمہ جي!ايسے ہی مواقعہ پر خدا ياد آتا ہے اور بہت اچھی طرح وبخوبی بار ياد آتا ہے۔واقعی اس بات ميں حقيقت ہے کہ اسی کی ذات پاک يہ نظام چلارہی ہے جسے ہماری عقل سمجھنے سے بس اوقات بالاتر ہوتی ہے۔يہ بلاگ پڑھ کر استاد نصرت فتحی علی خان کی گائی ہوئی ممتاز شاعر مظفر علی وارثی کی حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے ياد آگئی
مجھے تو دو ہزار بارہ والی بات درست ہی لگتی ہے۔ سوچتی ہوں تين بچوں کو ليکر کدھر بھاگوں گی۔ بس اللہ پاک عزت کی موت دے دے بلڈنگ کے نيچے دب کر مرنے سے مجھے بہت ڈّر لگتا ہے۔ آگ والی موت تو اللہ پاک کسی دشمن کو بھی نہ دے۔ پانی سے تو مجھے ويسے ہی خوف آنے لگتا ہے يہی حال زمين ميں دھسنے کا ہے
محترمہ آپ کوابھی يقين آرہا ہے جب اپنی آنکھوں سے سب ديکھ ليا- ہميں تو اللہ تعالی کے فادر مطلق ہونے ميں کويی شک و شبہ نہيں-
اسلام علیکم
آپ کی بات بھی بجا ہے۔ کیوں کے وہی تو ہے جو سب کاموں پر قادر ہے سائنس کیا ہے کچھ نہیں۔ یہ سب اسی کے کام ہیں اور اس کے ہر کام میں اس کی رضا شامل ہے
بے شک وہ بڑا غفور رحیم ہے۔ بے شک