جمہوریت کے گھر میں جمہور ناخوش
چھ مئی کو دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت برطانیہ میں لوگ نئی حکومت منتخب کرنے جا رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر تبصروں اور برطانوی تاریخ میں پہلی بار ٹی وی پر ہونے والے مباحثوں میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو سیاستدانوں کی طرف سے عوام سے معافی مانگتا ہوا دیکھ کر محسوس ہوا کہ جمہوریت کی جائے پیدائش میں سیاست شاید خود مشکلات کا شکار ہے۔
انتخابات میں میرا شمار بھی ان کالے، گورے، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، مشرقی یورپی، ویتنامی، چینی، عربی، صومالی اور اس طرح مختلف شناخت رکھنے والے لاکھوں ووٹروں میں ہوتا ہے جو اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
کم سے کم انتخابی کمیشن کی کوشش یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے ووٹوں کا اندراج کروائیں اور انتخابی عمل میں شامل ہوں۔ برطانیہ میں انیس سو پینتالیس کے بعد سن انیس سو ستانوے میں سب سے کم ووٹ پڑے جب یہ اکہتر اعشاریہ چار فیصد تھی۔
دو ہزار ایک میں ووٹنگ کی شرح انسٹھ اعشاریہ چار فیصد تک گر گئی جو ان انتخابات کا سب سے زیادہ قابل ذکر پہلو قرار دیا گیا تھا۔ سن دو ہزار پانچ میں اکسٹھ اعشاریہ چار فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالا۔
نسلی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے حوالے سے یہ کئی بار کہا جاتا ہے کہ وہ ووٹنگ کے معاملے میں باقی طبقات سے پیچھے ہیں۔ مسلمانوں کی کئی تنظیمیں اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
لوئیز ایک نوجوان انگریز لڑکی ہے۔ جس کا سیاست سے اس سے زیادہ کوئی تعلق نہیں کہ وہ لیبر پارٹی کی حامی ہے۔ لیکن وہ دس برس میں پہلی بار صرف یہ دیکھنے لیبر پارٹی کے مقامی دفتر گئی کہ وہ انتخابات میں ان کی کیا مدد کر سکتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ان انتخابات میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہے اور اس کو سیاسی عمل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
لندن میں باہر سے آنے والے لوگ اگر میڈیا نہ دیکھیں تو اندازہ نہیں ہوگا کہ تقریباً دو ہفتے بعد انتہائی اہم پارلیمانی انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ ہونے والا ہے۔
انتخابی مہم کی بظاہر بے رنگی کا اندازہ اس بات سے لگ سکتا ہے کہ لندن میں اپنے گھر کے قریب لیبر پارٹی کے ایک امیدوار کے گھر کے سامنے انتخابات کی واحد نشانی ان کی کھڑکی پر چسپاں ایک چھوٹے سائز کا پوسٹر ہے۔
حقیقیت میں ہزاروں بلکہ لاکھوں سیاسی کارکن اور رضاکار اپنی پسند کی حکومت کے قیام کے لیے دن رات مصروف ہیں۔ ووٹروں تک پیغام پہنچانے کے لیے ٹیلیفون، کمیونٹی ہال میں چھوٹے چھوٹے اجلاس، انٹرنیٹ کے ذریعے پیغام رسانی جیسے طریقوں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
ارکان پارلیمان کی طرف سے سرکاری وسائل کے غلط استعمال کے حالیہ سکینڈل نے سیاستدانوں کی ساکھ بری طرح متاثر کی تھی۔ سب جمہوریت میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک کی طاقت سیاسی نظام سے ہے اور سیاسی نظام کی طاقت لوگوں کی شرکت سے۔
تبصرےتبصرہ کریں
اسد علی صاحب!اس بات ميں کوئی شک يا دو رائے ہو ہی نہيں سکتی کہ جمہور آج کل تيزوہوشيار ہوگئے ہيں۔آپ کو جو يہ انتخابی مہم سست و بے رنگ اور پھيکی لگ رہی ہے اس کے پس پردہ بھی يہی حقيقت ہے کہ لوگ اب جھانسے ميں آنے والے نہيںـ خير وہاں تو حقيقی عوامی مسائل پر مبنی معاملات پر انتخابی دنگل پڑے گا کوئی گالم گلوچ بلوے دنگے قتل و غارت نہيں ہوگي ۔سب سے بڑھ کر جو بھی اور جيسے بھی نتائج آئے تو انکو کشادہ دلی سے تسليم کرليا جائے گا ۔آرام سکون سے انتقال اقتدار ہوگا اور حکومت سازی ہوگي۔ ہمارے ہاں کی طرح جوڑ توڑ اورٹانگيں کھيچنے کا عمل کھل کر سامنے نہيں آئے گ۔ا۔حزب اختلاف اپنے کام ميں جت جائے گي اور کابينہ کی تشکيل کے بعد ايک شيڈو کابينہ بن جائے گی جو حکمرانوں پر کڑی نظررکھيے گے۔يہی جمہوريت اور اچھے جمہور کی نشانی ہے۔ايک يہ ہيں جن کو تصوير بنانی آتی ہے اور ايک ہم ہيں کہ اپنی شکل بگاڑ لی ہے
اسد علی صحاب برطانیہ دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت نہیں اور نہ ہی جمہوریت کی جائِے پیدائش ہے۔ دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت اور جائے پیدائش یونان ہے۔ برائے مہربانی اپنا نالج درست کر لیں۔
میرے خیال میں اسد صاحب کا مطلب سب سے پرانی جاری جمہوریت ہے
آپ اس بلاگ ميں يہ بتانا چاہ رہے ہيں کہ ووٹ ڈالنے کا حق آپکو حاصل ہوگيا ہے تو بھئی مبارک ہو۔ وہ تہذيب و تميز والے لوگ ہيں تبھی ماحول بھی اليکشن والا نہيں ہے۔ ہمارے يہاں کے مقابلے ميں تو بلکل نہيں ادھر تو نيوز اينکرز ہی بتانے کيلۓ کافی ہيں کہ اليکشن زوروں پر ہے اپنے زرق برق ميک اپ اور جوڑوں سميت
ووٹ کا حق آپ کو مل گيا اور دنيا کی بہترين جمہوری معاشرے ميں آپ يہ حق استعمال کريں گے۔ يہ بھی خوشی کی بات ہےـ مجہے اس سارے بلاگ ميں سب سے اچہی بات جو لگی وہ يہ کہ جہاں آپ نے ٰذکر کيا ہے کہ لاکھوں سياسی کارکن اور رضاکار اپنی پسند کی حکومت کے قيام کے ليے دن رات مصروف ہيں۔
يہ بات نشاندہی کرتی ہے سياسی معاشرے کي: اب ہم ديکہتے ہيں اپنی طرف اپنے سياسی کلچر اپنے جمہوری نظام کی طرف بہت چيزيں ہيں جو ہميں سيکہنا بہی پڑيں گی اور اپنانا بھی پڑيں گي۔
ہم اگر دنيا کی اچہے جمہوری نظام کي طرف جانے کے خواہشمند ہيں تو اس کے لئے ہميں جمہور کے نظام کو فالو کرنا پڑے گا ـ برطانيہ کو کوئی برا بھلا کہتا ہے تو کہتا رہے اس سے کوئی فرق نہيں پڑتا۔ پر اس بات سے کون انکار کرے گا کہ وہاں کا نظام جمہوريت رشک کرنے جيسا پے ـ
کوئی ملک ہمارے مفادات کا پاس نہيں رکھتا وہ الگ بحث ہے ليکن اپنے شہريوں کے لئے وہ بہت کچہ کرتا ہے ـ جمہور کے نظام کا احترام ہونا چاہئے اور جمہوری اقدار کو اپنانے ميں ہی اپنے بھلائی ہےـ ہميں نظام جمہور کی وہ سب باتيں اپنانا ہوں گيں جس سے ہم بھی کل کو اچھی سچي اور حقيقی جمہوريت کہلوانے کے قابل ہو جائيں ـ
اسدعلی صاحب يہی برطانوی جمہوريت کا حسن ہے کہ يہ بغير کسی گھن گرج اور مخالفين يعنی اپوزيشن جماعتوں کا ناطقہ بند کئے، بغير خاموشی اورپولنگ کے روزبغير سرکاری تعطيل کے منعقد ہوں گے۔ جن ميں آپ اورمجھ جيسے وہ تمام لوگ بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کريں گے جو دوسرے ممالک سے آکر يہاں آباد ہوگئے ہيں ۔ يہی نہيں بلکہ دوسرے ممالک سے آنے والے يا ان کی دوسری اور تيسری نسل کے لوگ جو مختلف جماعتوں کی طرف سے اميدوار ہيں منتخب ہوکر دارالعوام اور لوکل کونسلوں ميں اپنی ذمہ دارياں ادا کريں گے۔
کاش ہم بھی ہر مکتبۂ فکر يا نظريہ کے فرد کو صرف اور صرف انسانی آنکھ سے ديکھنا شروع کرديں اور اقليتوں يا فرقوں کی بنياد پر انسانی حقوق کے فرق کومغرب کے اس جمہوری نظام کی طرح ختم کرديں تاکہ طالباني،خيبر پختونخواہ،لسانی ومذہبی يا سوشلزم کے فلسفوں يا مايوسی کے کسی بھی نظريہ کے چکروں سے پاک معاشرا بنے۔
میرے خیال میں اگر پاکستان میں جمھوریت کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے تو ایک دن ھم بھی دنیا کی بھترین جمھوریت والا ملک بن سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی موجودہ سبھی سیاسی جماعتوں میں وہ بات نھیں جس کی بناء پر کہا جائے کہ اب صحیح جمھوریت آوے ہی آوے۔۔۔مگر یہ کہنا درست ھوگا کہ راستہ یہیں سے نکلتا ہے، اگر اس کو چلنے دیا جائے۔۔۔۔دنیا کی بھترین پرانی و نئی جمھوریتیں بشمول برطانیہ بھی اسی طرح دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی جارہیں ہیں۔
برطانيہ ميں اقتدار کا انتقال ہونے والا ہے, ڈاکٹر الفريڈ چارلس صاحب کی زبانی معلوم ہوا, انا للہ وانا اليہ راجعون
مرحوم 2012 تک تو انتظار کر ليتے وقت سے پہلے ہی رخصت ہو گئے
جمہوریت سے وابستہ امیدوں کے بارے میں تو سنا تھا مگر اسمیں نئی روح پھونکنے کے بارے میں آج ہی پتہ چلا ہے ۔ ہمارے ہاں تو ابھی جمہوریت آ ہی رہی تھی کہ آپنے اسکے جانے کی بات کردی ۔ ہمیں کیا بھئی، ہماری تو بس شامت ہی آنی ہے تو بھلے ہی اس وقت کے آنے سے پہلے تھوڑی سی پرانی روح والی جمہوریت کا بھی انتقال ہی کیوں نہ ہو جائے ۔
صاب جی خوب لکھا ھے۔ذرا اپنی جمھوريت اور جمھوريوں پہ بھی نظر ڈالی ھوتي۔رشن خيالی تو سيکھ لی پاکستانيوں نے اچھا ھوتا جو گوروں سے جمھوريت بھی سيکھ ليتے
چوہدری جی کے بیان کیے گئے اعداد و شمار بابت بی بی سی کے ملک برطانیہ میں شرحِ ووٹنگ کا بغور جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر برطانیہ میں شرح ووٹنگ کا گراف بتدریج نیچے گِرتا نظر آتا ہے۔ سن دو ہزار ایک میں ووٹنگ کی شرح اُنسٹھ اعشاریہ چار فیصد جبکہ دو ہزار پانچ میں دو فیصد اضافہ کے ساتھ اکسٹھ اعشاریہ چار فیصد۔ بظاہر تو دو فیصد شرح ووٹنگ بڑھتی نظر آتی ہے لیکن یہ آٹے میں نمک کے برابر شرح ووٹنگ کے بڑھنے کی وجہ ‘جمہوری شعور‘ سے زیادہ ‘وقت زخم بھرتا ہے‘ ہے۔ دلسچپ امر یہ ہے کہ ‘نائن الیون‘ سے پہلے سن انیس سو ستانوے میں برطانیہ میں شرحِ ووٹنگ اکہتر اعشاریہ چار فیصد تھی۔ لہذا شرح ووٹنگ میں اس اتار چڑھاؤ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہو گا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برطانوی باشندے اپنی ‘جمہوریت‘ اور ‘جمہوری پارٹیوں‘ اور ‘سیاستدانوں‘ سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں اور اس مایوسی کی دیگر وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ منتخب نمائندوں کی ‘اندھی استعمار نوازی‘ ہے اور جس کا بخوبی اندازہ عراق جنگ کی حمایت اور افغانستان میں دو ہزار فوجی بھیجنے کا وقت سے پہلے اعلان سے ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں جہاں نہ صرف ایوانوں میں بلکہ اداروں میں بھی آمریت کا دور دورہ رہا، یہاں جمہوریت پنپ رہی ہے، مضبوط ہو رہی اور جمہوری شعور نشونما پا رہا ہے۔ دورانِ الیکشن کارکنوں کا جوش و خروش، گھر گھر ووٹ مانگنے کی روایت، پارٹی ترانوں کی تخلیق، ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا وسیع پیمانے پر بندوبست، پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ رزلٹ سننے کے لیے لوگوں کا رات گئے تک انتظار کرنا وغیرہ جیسی باتیں پاکستان میں سیاسی نظام کی نشونما کو بخوبی واضح کرتی ہیں۔ مُکدی گَل، برطانیہ بارے ‘جمہوریت کے گھر میں جمہور نا خوش‘ کہنا جبکہ پاکستان بارے ‘آمریت کے گھر میں جمہور خوش‘ کہنا بالکل درست ہے۔
چودھري صاحب ، ہم ٹھہرے سادہ اور معصوم لوگ جنہيں ايک ہي مداري دو دو بار ٹوپي پہنا کر تيسري باري کا متمني نظر آتا ہے ليکن جمہوري روايات کے وارث آپ کے معاشرے پر حيرت ہوتي ہے - ايک منتخب وزيراعظم جھوٹ کا اعتراف کرتا ہے جس کے نتيجے ميں ملک جنگ سے دوچار ہوا۔ ہزاروں بے گناہ مارے گۓ اور اربوں ڈالر کا انفراسٹرکچر تباہ ہو گيا۔ اس شخص کو مشرق وسطٰی ميں امن کا سفير تعينات کيا جاتا ہے اور عالمي فورموں پر ليکچروں کے نام پر کروڑوں ڈالر سالانہ ادا کرکے آنے والوں کے لۓ مشعل راہ بنا ديا جاتا -
اب کیا آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ ان کا حال ہی برا کر دیا ان لوگوں نے مطلب جو پہاڑوں میں رہتے ہیں ۔ اب صدر کیا پوری قوم ہی مسلمانوں سے معافی مانگے گی۔
انسانی معاشرہ مختلف نظاموں کے تجربات کے بعد اس نتيجے پر پہنچا ہے جمہوريت ہی بہترين نظامِ حکومت ہے جس ميں انسانی حقوق کا تحفظ ہے دنيا ميں نافذ تمام نظام حکومت کے مقابلے ميں جمہوريت ميں ايک عام فرد کے ترقی کے مواقع بہت ہيں۔ مانا کہ کچھ جمہوري اقوام ميں اب بھی خامياں موجود ہيں مگر ان کا مقابلہ ان اقوام سے کيا جائے جو جمہوريت سے نا آشنا ہيں بہت فرق نظر آئے گا۔ اب رہا سوال برطانيہ کے اليکشن ميں وٹوں کے ٹرن آؤٹ کا تو ہم پاکستانيوں کو بلکل بھی زيب نہيں ديتا کہ ہم کوئی تبصرہ کريں ہمارا اپنا حال کيا ہے ؟
آصف صاحب، يونان کے عظيم فلاسفرز نے جمہوريت کا جو تصور پيش کيا تھا، اسکے نتيجے ميں قائم ہونے والی حکومتيں، جمہوري بالکل نہيں تھيں- اس وقت نہ صرف عورتوں اور غلاموں کو ووٹ کي اجازت نہيں تھي، بلکہ اشرافيہ کے مخصوص طبقات کے علاوہ نچلے طبقات بھی ووٹ کی طاقت سے محروم تھے- جمہوريت کی موجودہ شکل برطانيہ ہی کی دين ہے، جسکی بنياد ايک فرد ايک ووٹ پر ہے- يونانی طرز کی جمہوريت کی بہترين مثال ہمارے قبائلی علاقوں ميں نظر آتی تھي، جہاں سرداروں اور کچھ گنے چنے لوگوں کو ووٹ کی اجازت تھي، اور سردار صاحب سات آٹھ سو ووٹ خريد کر ممبر پارليمنٹ بن جاتے تھے-
بات نظام جممور کی نکلی ہے تو پہر تمام حقائق بہی سامنے آنے چاہيں کہ ہمارے ملک ميں جمہوری نظام کا سب سے بڑا دشمن کون ہے؟ دشمن نمبر ون تو ان کو کہنا چاہئے جو آئين شکن قوتيں ہيں جو پارليامينٹ کو توڑنے کا کام منٹوں سيکنڈوں ميں کرتی ہيںـ وہ جو ملک کے آئين کو کاغذ کے ايک ٹکڑے سے زيادہ حيثيت دينے کے لئے تيار نہيں ہوتے ـبات نکلی ہے تو کوئی يہ بہی حساب کتاب دے کہ اسلامی جمہوريہ پاکستان ميں کتنے سال نظام جمہور چلا ہے اور کتنے سال مطلق النعان مسند اقتدار پر براجمان رہے ہيں ـ عوام تو ہر اليکشن ميں جمہوريت کو ہی ووٹ ديتے ہيں اب ان اليکشن کے نتائج ہی تبديل کئے جاتے ہوں تو اس ميں عوام کا کيا قصور؟ جمہوريت کی بات کرنا اچھا ہے ليکن باتوں سے ہمارا سسٹم بہتر ہوتا دکھائی ذرا مشکل ديتا ہے ـ دنيا ميں سب سے بہتر پارليمانی جمہوری نظام ثابت ہوا ہے اس لئے سب کو اس نظام کی نہ فقط حمايت کرنی چاہئے ليکن اس نظام کو بگاڑنے والوں کی مذمت بہی کرنا جمہور کے حاميوں کا اولين فرض بنتا ہے ـ نظام جمہوريت کے دشمن فقط وہ آمر نہيں جو کينٹ ايريا سے نکل کر اقتدار ہر آ کر بيٹھ جاتے ہيں ليکن ان کے حامي اور وہ حواری جو کبہی ان کو دس بار وردی ميں چننے کی بات کرتے ہيں کبہی ان کے تمام غير آئينی اقدامات کو مکمل طور جائز قرار ديا جاتا ہے
جناب ہم سب جانتے ہيں کہ پا کستان ميں جمہوريت کو بھلنے نہیں ديا گيا اور يہ اسی کی وجہ ہے کہ لوگوں ميں سياسی شعور تو مگر سيا ست سے حاصل ہو نے والے فوائد سے ابھی تک لوگ با شعور نہیں ھيں اور اس ميں قصور سيا ست دانوں کا پھی ھے کہ انھوں نے اپنے مفا دات کو سامنے رکھا اور ايک اور وجہ تعليم کا فقدان ھے۔ اگر ان سب باتوں کو سامنے رکھا جا تا تو کسی بھی جمہو ری ملک سے آگے ہو تا اور ہر شحص اپنے ووٹ کو ايک عبا دت سمجھ کر کا سٹ کر رہا ہوتا