سائیکل کے پیچھے پیچھے
جمعرات کو لندن کے انتخابی حلقے شمالی الفرڈ میں میں نے پہلی بار 'ہسٹنگز' میں شرکت کی۔ بحیثت پاکستانی میرے لیے برطانیہ کی انتخابی مہم کی یہ جھلک اس سب سے مختلف تھی جو ہم سیاست سے منسوب کرتے ہیں۔
اس 'ہسٹنگز' میں دو امیدواروں سے ملاقات ہوئی۔ یہ ان دونوں کی بھی غالباً آپس میں پہلی ملاقات تھی۔
ایک تھے کرسچن عوامی اتحاد کے رابرٹ ہیمپسن اور دوسرے تھے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایلکس برہانو۔ دونوں اپنے حلقے کے دیگر امیدواروں کے ساتھ مقامی سکول وڈبرج ہائی میں 'ہسٹنگز' میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے بتاتا چلوں کہ ہسٹنگز کی کارروائی کیا ہوتی۔ برطانیہ کے انتخابی کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق ہسٹنگز وہ سیاسی اجتماع ہوتا ہے جس میں مختلف تنظیمیں یا ادارے حلقے کے تمام امیدواروں کو بلاتے ہیں جو پھر حاضرین کے سوالات کے جواب دیتے ہیں۔
ہسٹنگز کا فائدہ یہ ہے کہ اس پر اٹھنے والے اخراجات امیدواروں کے انتخابی اخراجات کی مد میں نہیں گنے جاتے۔ اگر صرف ایک امیدوار کو دعوت دی جائے تو وہ اجتماع 'ہسٹنگز' نہیں کہلائے گا اور اس اجتماع پر اٹھنے والے اخراجات امیدوار کی مہم کا حصہ سمجھے جائیں گے جن کی حد مقرر ہے۔
ہسٹنگز کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ ان چھوٹی پارٹیوں کے امیدواروں کو جنہیں عام طور پر ذرائع ابلاغ میں جگہ نہیں ملتی یا کم ملتی ہے بڑی پارٹی کے امیدواروں کے ساتھ بیٹھ کر برابری کی سطح پر لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہسٹنگز میں تمام امیدواروں کو بولنے کا ایک جتنا وقت ملتا ہے۔
امیدواروں کی انتخابی مہم کے دوران مصروفیت دیکھنے سے معلوم ہوتا ہےکہ ان کا مہم پر اچھا خاصا وقت ہسٹنگز میں گزرتا ہے۔
وڈبرج ہائی سکول میں ہسٹنگز کی کارروائی دیکھنے کا میرا یہ پہلا تجربہ تھا۔ حاضرین میں سولہ سے اٹھارہ سال کے تقریباً ڈیڑھ سو بچے شامل تھے جنہوں نے مختلف موضوعات پر سوالات کیے۔ سیاست اور جمہوریت کا ان کا یہ پہلا سبق تھا۔
ہسٹنگز کی کارروائی مقررہ وقت پر ختم ہو گئی۔ تمام امیدوار خاموشی سے روانہ ہو گئے۔ لیبر پارٹی کی امیدوار سونیا کے خاوند سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ وہ بچوں کو سکول سے لینے جا رہے ہیں اور سونیا کو دو تین فون کرنے ہیں۔ کنزروٹیو پارٹی کے امیدوار نے ٹی وی انٹرویو کے لیے جانا تھا وہ پہلے نکل چکے تھے۔
پیچھے رہ گئے کرسچن عوامی اتحاد کے رابرٹ اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایلکس برہانو۔ میں نے ایلکس سے انٹرویو کے لیے وقت مانگا تو اس نے مجھے گاڑی میں ساتھ بٹھا لیا۔ معلوم ہوا کہ ہم رابرٹ کے گرجا گھر چائے پینے جا رہے۔
ہم نے رابرٹ کا انتظار کیا جو اپنی سائیکل پر آگے آگے چل پڑے۔ مصروف سڑکوں پر تقریباً دو میل کا فیصلہ طے کر کے گرجا گھر پہنچ گئے۔ رابرٹ نے ہسٹنگز کے دوران ان امیدواروں کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی تھی جو ماحول کی بات کرتے ہیں لیکن آتے جاتے گاڑیوں پر ہیں۔
راستے میں ایلکس نے بتایا کہ کہ وہ کس طرح ایتھوپیا میں اپنے نظریات کی وجہ سے پانچ سال جیل کاٹنے کے بعد برطانیہ آیا اور پھر اب ایک بڑی جماعت کا امیدوار بن گیا تھا۔
ہسٹنگز کے بارے میں بات ہوئی تو اس نے اپنی مخالف امیدوار سونیا کی تعریف کی اور کہا کہ وہ اچھی عورت ہے۔ رابرٹ بھاری ٹریفک کے بیچ میں مسلسل ہمیں اشاروں سے راستہ دکھا رہا تھا۔ ہم گاڑی پر اس کی سائیکل کے پیچھے پیچھے تھے۔
گرجا گھر میں اس نے وہاں پہلے سے موجود اپنے عزیزوں سے ہمارا تعارف کروایا۔ ہمیں چائے اور بسکٹ پیش کیے۔ پھر دونوں امیدواروں نے گرجا گھر کے خاموش اور پہر سکون ماحول میں اپنی مہم کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کی،ہلکی پھلکی باتیں کیں اور دن بھر کی تھکن دور کی۔
رابرٹ نے ایلکس کو بتایا کہ ساؤتھ وڈ فرڈ کی مسجد کی طرف سے مختلف امیدواروں کو ہر جمعے کو نمازیوں کے سامنے اپنا پروگرام پیش کرنے اور ان کے سوالوں کے جواب دینے کی دعوت دی جاتی ہے اور شاید ایلکس کو بھی بلایا جائے۔
دونوں نے شام کو ایک گرجا گھر میں ہسٹنگز میں جانا تھا۔ ایلکس نے اجازت چاہی اور چلتے ہوئے رابرٹ کے بہت سے پوسٹر اٹھا لیے جس پر اس کا انتخابی پروگرام اور پیغام درج تھا۔ اس نے ہنستے ہوئے رابرٹ سے کہا کہ وہ مختلف گرجا گھروں میں جاتا ہے یہ پوسٹر وہاں رکھ دے گا۔
تبصرےتبصرہ کریں
لگتا ہے کچھ خاص اصحاب کو آپ اخلاقی درس دینا چاہ رہے ہیں ۔وگرنہ اتنی اخلاقیات تو ہمارے ہاں بھی ہیں ۔
اس بلاگ کی طوالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے چوہدری جی تھوڑی سی کوشش کرتے تو اس کے دو بلاگ بن سکتے تھے۔ ازرائے مہربانی مختصر بلاگ لکھا کریں کیونکہ جتنی دیر اتنا لمبا تڑنگا بلاگ پڑھنے اور اس پر تبصرہ لکھنے کا ذہن میں خاکہ بنانے میں لگتی ہے اتنی دیر میں ایک گھنٹہ ختم ہو جاتا ہے یعنی بتی جانے کا ٹائم ہو جاتا ہے۔ شکریہ۔
ايلکس،سونيا،رابرٹ اور مضبوط جمہوری نظام کے استحکام کے لئے سادہ انداز ميں اليکشن مہم چلانے والے تمام اميدواراں کے لئے نيک تمنائوں کے ساتھ دعا ہےـ وہ تمام ممالک جن ميں نظام جمہوريت مستحکم اور مضبوط ہے ہم دعاگو ہيں کہ ان سے کچھ نہ کچھ سيکھ ليں ـ اليکشن مہم چلانے کے بھی لاکہوں انداز ہيں ـ پاکستان سے باہر تو يہ مہم چلتی ہی نظریے اور کاکردگی کی بنياد پر ہے اور اپنے ملک ميں کبہی آپ اس اليکشن مہم کو مانيٹر کريں تو کس حد تک پريشان بہی ہوں گے تو ششدر بھي۔ ـسائيکل پر مہم چلانے کا تصور تو دور کی بات ہے اگر کوئی اميدوار اس طرح کی سوچ کو اپنے ذھن ميں جگہ دے تو اس کو پارٹی ٹکٹ سے ہی ہاتھ دھونا پڑے گاـ پہلی بات يہ کے ہمارے ہاں کی سياسی قيادت ان اميدواروں کو اليکشن ٹکٹ ہی کيوں ديں گی جو سائيکل پر مہم چلانے کی بات کريں گے ـ يہ سياسی سماج اور سوچ کا فرق ہے اس کو سمجھنے سمجھانے ميں بہت سا وقت درکار ہےـ ہمارے ہاں پارٹي ٹکٹ کی پہلی شرط ہی يہ کہ اميدوار کم از کم کروڑ پتی ہونا لازمی ہےـ کسی بھی پارٹی ميں ايک سوميں سے ايک يا دو بندے ايسے ہوتے ہيں جو کروڑ پتی نہيں ہوتے اور ان کے حصے ميں پارٹی ٹکٹ آتا ہے يہاں نظريات نہيں زندہ اور مردہ شخصيات کے نعروں پر اليکشن لڑے جاتے ہيں جو اميدوار زيادہ سے زيادہ پیسہ اليکشن مہم پر خرچ کرنے کا اھل ہوتا ہے وہ ہی پارٹي کے لئے بھی اہل سمجھا جاتا ہے اور يہ سب سياسی کلچر کے فقدان کی وجہ سے ہوتا ہےـ آپ نے جس سياسی معاشرے يا سياسی سوچ کی بات کی ہے اس تک پہنچنے کے لئے ہميں کافی وقت درکار ہےـ يہاں تو اب تک مخالف اميدوار پر بھينس چوری کے مقدمات دائر کرنے سے بھی گريز نہيں کيا جاتاـ سياسی ليڈر غير سياسی آقاؤں کے آگے پيچھے گھومنے کو اعزاز سمجھتے ـ ہم تو چاہتے ہيں کہ يہاں کی سياسی قيادت بہی ايک شفاف سياسی کلچر کے نہ فقط انداز اپنائے ليکن اس کے لئے کوشش بہی کرے ـاس وقت اگر يہاں سائيکل آگے اور گاڑی پيچھے ہو تو آگے والے اميدوار کی خير نہيں ہوگی ـ
اس بلاک ميں صاحب نصر کيا کہنا چاھتے ھيں يا بات ابھی باقی جو يہ لکھنا چاھتتے ھيں۔ وہ ابھی باقی ھے۔ مشرق اور مغرب کے کوگوں ميں ايک بلکل واضع فرق ھے جو رھے گا۔ اور وہ ترقی کا ھے اور جب ھم اس ترقی کے منازل طے کر ليں گے تو ھم ميں بھی طبقاتی کشمکش سے مبرا ھو جا يئں گے اور بڑے اور چھو ٹے اور بڑے کی تميز حتم ھو جا ئے گی اور سائیکل اور کار پر سفر کرنے کو ايک اہميت ديں گے۔اور سب کہیں گے ايک ھی صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و اياز
بھلا پاکستان کے لوگوں کو ہسٹنگز کے بارے ميں بتانے کا کيا فائدہ؟آپ نے اتنی محنت کرکے اتنا بڑا بلاگ اس ليۓ لکھا کہ لوگ اور سياستدان متاثر ہوکر مغرب کی طرح شائستہ انتخابی طرز کی تعمير کريں گے؟مولويوں،چوہدريوں،جاگيرداروں،سرمايہ داروں اور فوجی آمروں کی موجودگی ميں کون کيا سوال کرے گا اور کون اس کا کيا جواب دے گا۔بس نعرے بازی کا نام انتخابی مہم ہوتا ہے جس ميں پيجارو اور بندوقوں والے آگے آگے اور مايوس لوگ کوئی اچھی تمنا ليۓ پيچھے پيچھے ہوتے ہيں۔
چوہدری جی کے ‘الیکشن بلاگ‘ سیریز کے اس دوسرے بلاگ میں تین باتیں قابلِ ذکر ہیں۔ پہلی، ہسٹنگز، دوسری، لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایلکس برہانو کا مخالف امیدوار سونیا کی تعریف۔ اور تیسری بات کرسچن عوامی اتحاد کے رابرٹ کا سائیکل پر سفر۔ بلاشبہ برطانیہ میں ‘ہسٹنگز‘ ایک بڑی ایکٹیویٹی ہے اور اس کے ذریعے امیدواروں کو ‘انفرادی سطح‘ پر صحیح معنوں میں جانچا، تولا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ ‘ہسٹنگز‘ کا انعقاد، قوت برداشت، تعلیم، خرد پسندی، مثبت اور با مقصد تنقیدی سوچ، ناقدانہ نقطہ نظر اور صبر و تحمل جیسی خصوصیات رکھنے والے برطانوی معاشرہ ہی میں ممکن ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں ‘ہسٹنگز‘ جیسے سیاسی اجتماع کو عملی جامعہ پہنانا بہت مشکل ہے کیونکہ ہمارے ہاں امیدواروں کا زیادہ تر انتخاب تعلیم، تجربہ، کسی بھی فیلڈ میں سپیشلائزیشن، حالاتِ حاضرہ پر نظر (جو کہ ‘ہسٹنگز‘ میں شامل ہونے کے لیے بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتی ہیں) کی بجائے عمومآ ذات برادری، مال و دولت، موروثیت، اور جواں سالی جیسی باتوں کو مدِ نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے ان حالات میں ‘ہسٹنگز‘ کا پاکستان میں انعقاد امیدواروں کے لیے ایسے ہی ہوگا جیسے کہ جمشید دستی کے چیف جسٹس کے سامنے عام سوالات کے جواب نہ دے سکنے سے ہوا۔ گویا پاکستان میں ‘ہسٹنگز‘ کا بندوبست کرنا دراصل امیدواروں کا اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ علاوہ ازیں چونکہ ہمارے معاشرہ میں قوتِ برداشت کی عدم موجودگی اور کسی کی آواز کو سننے سے زیادہ اپنی آواز دور دور تک پہنچانے کی ریہرسل و بندوبست کرنا ایک عام بات ہے لہذا یہاں پر ‘ہسٹنگز‘ کا خواب تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کی تعبیر نہیں۔ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایلکس برہانو نے اپنے مخالف امیدوار سونیا کی تعریف کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ دوست، دشمن، پارٹی، چہرہ یا نظریات کو نہیں بلکہ ‘بات‘ کو دیکھتے ہیں کہ اس میں کتنا وزن ہے یعنی حقیقت پسندی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں۔ کرسچن عوامی اتحاد کے رابرٹ سائیکل پر سفر کر کے یقینی طور پر ان لوگوں کو شرم دلانے میں بھرپور کامیاب رہے ہیں جو ماحول کی بات تو کرتے ہیں لیکن آتے جاتے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر ہیں۔ رابرٹ نے دراصل یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ‘دعوؤں‘ پر نہیں بلکہ ‘عمل‘ پر یقین رکھتے ہیں۔
‘عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے‘
صا ب جی اچھا لکھا ھے اور دل کھول کے لکھا ھے۔يہ سب باتيں حقيقت کی آئينہ دار بھی ھيں اور ترقی يافتہ ممالک کی ایک چھوٹی سی تصوير بھي۔ ليکن تيسری دنيا کی باسيوں کے لیے جہاں ہم رھتے ھيں یہاں کی جمھوريت ،اسکو قائم کيسے رکھا جائے وغيرہ وغيرہ۔ يہ ساتھ ساتھ بتايئں گے تو اس بلاگ ميں اور نکھار آئے گا۔ ورنہ سينکڑوں سال پھلے جڑيں پکڑنے والی جمہوريت اور ہمارا کيا مقابلہ ،کيا موازنہ جس جمھوريت جس نے ابھی انگلی سے پکڑنا ھی سيکھا ھے
اسد صاحب! بلاگ پڑھ کر مزا آيا کيونکہ چند ايک نئی انتخابی اصلاحات کا پتہ چلا۔ايک بات واضح ہوئی کہ سب سے اچھی بات يہ ہے کہ اتخابی مہم کے دوران نظم و ضبط اور قواعد کا خاص خيال رکھا جاتا ہے۔مخالف اميدوار برداشت و تحمل سے کام لے رہے ہيں کہ دل کہہ اٹھتا ہے کہ کمال ہے!سب سے اچھی بات لگی کہ اميدوار کا کسی مصنوعيت پسندی کے بغير سائيکل پر سفر کرنا اور انتخابی مہم چلانا۔دوسرے آپ نے اشارہ کيا ہے کہ اگر دوران مہم ايک عبادت گاہ استعمال ہورہی ہے تو وہ بھی نفاست وسليقہ سے۔بلاگ پڑھتے ہو دماغ ميں يہاں کا منظر سامنے آيا تو خيال آيا کہ ہمارے ہاں بھی ايک مرد مومن مرد حق نے بھی بطور دکھاوا بلکہ تماشا سائيکل چلائی تھی ۔سابق پنجاب اسمبلی کی ايک رکن رکشہ پر آئي،ايک رکن سندھ اسمبلی جن کا تعلق لياری کے قديم علاقے سے تھا وہاں کی مخصوص سواری گدھا گاڑی پر آئی تھيں اور موجودہ قومی اسمبلی کے ايک رکن بھی رکشہ پر تشريف لائے مگر موصوف کئی قيمتی گاڑيوں کے مالک ہيں۔آپکے اسی نوعيت کے اگلے بلاگ کا شدت سے انتظاررہے
لگے رہو اسد علی صاحب، کوئی تو ہو جو ھمیں بتلائے کہ دنیا کہ مہذب معاشروں اور جمہوری ملکوں میں کیا کچھ اور اچھا ہوتا رہتا ہے۔ بھلا ایک نہ ایک دن ھم نہ سہی ہماری آنے والی نسلیں وہ پاکستان دیکھیں جس کے لیئے ہماری آنکہیں ترس گئیں ہیں، کیوں کہ ھم نے بڑوں سے سنا اور کہیں پڑھا ہے کہ مثبت تبدیلی کے لیئے تو کئی نسلیں درکار ہوتیں ہیں تو پھر ھم کیوں ایک دم پاکستان کو دنیا کی بڑے اور شاندار جمہوری ملکوں کے سامنے برابر لانے پہ تلے ہوئے ہیں۔ بار بار کی فوجی مداخلتوں اور آمرانہ حکومتوں کی وجہ سے پاکستن جیسے ایک صدی پیچھے چلا گیا ہو۔ میں تو اس خیال کا ہوں کہ اگر جمہوریت کو چلنے دیا جائے، میڈیا غیرجانبدار اور مثبت کردار ادا کرتا رہے اور انصاف کرنے والے جج بے خوف ہو کر نظریہ ضرورت کو دفن کرکے انصاف کو عام اور سستا کرے تو بہت جلد ھم بہی فخر سے دنیا کو یہ کہہ سکیں گے کہ بھئی دیکہو ھم بھی کسی سے کم نہیں۔ ہے تو یہ دیوانے کے خواب، خواب دیکھتے رھنے چاھئیں کیوں کہ خوابوں کی کبھی کبھار تعبیر بھی ہو جاتی ہے۔۔۔۔فرسٹریشن نکالنے سے بہتر نہیں کہ انسان مثبت سوچے تبدیلی خود بہ خود آتی جائیگی۔
جس نظام کی آپ بات کر رہے ہيں ميں بھی اس کا حصہ ہوں۔ بڑی خو شی ہوئی پڑھ کرـان دو بلاگ پر ميں يہ کہوں گا کہ اسميں سبق ہے ہر امير غريب کے لۓ اور مشرقی اور مغربی سيا ست کے لۓاوريہ واقعات اتنے ہيں کہ آپ ہر روز بلاگ لکہ سکتے ہيں پہر دل جلے کہيں گے کہ آپ شو خے ہو رہے ہيں