جنگل کا قانون
کیا اس بات کا کوئی جواز ڈھونڈا جا سکتا ہے، یا یہ ہے کہ بس ایک پاگل خانے کا دروازہ دوسرے پاگل خانے میں کھل گیا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کس طرح کوئی سوات سے پچیس خاندانوں کو، عورتوں اور بچوں سمیت، اس لیے نکال سکتا ہے کہ ان کے رشتہ دار طالبان ہیں یا شدت پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
کسی ایک شخص کے جرم یا گناہ کی سزا اس کے خاندان کو ملے یہ تو جنگل کا قانون ہے اور سوات شاید ایک جنگل ہی ہے۔ جس میں یا تو درندے دندنا رہے ہیں یا پھر بدلے کی آگ میں بے حواس لوگ۔
فوج کا کہنا ہے کہ ان کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔ مذکورہ خاندانوں کو ڈیڈلائن دی گئی تھی کہ ان کے شدت پسند رشتہ دار اپنے آپ کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیں لیکن ایسا نہ ہونے کے بعد علاقے کے جرگہ یا بڑوں کی کونسل نے پچیس کے قریب خاندانوں کو 'سوات بدر' کر دیا۔ اور اب وہ وہیں رہ رہے ہیں جہاں اس سے قبل مالاکنڈ ڈویژن میں افغان پناہ گزین رہ رہے تھے۔
فوج کا شاید یہ کہنا درست ہی ہو گا کہ اس کا ان خاندانوں کی سوات بدری میں کوئی ہاتھ نہیں لیکن کیا وہ فوج جو علاقے میں سکیورٹی اور لوگوں کی جان و مال کی ذمہ دار ہے، جرگے کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی تھی؟ آخر وہ لوگ شدت پسندوں کے رشتہ دار ہی تو ہیں خود شدت پسند تو نہیں۔ اور اگر ہیں بھی تو اس وقت تک انہیں کسی قسم کی کوئی سزا دینا غلط ہے جب تک ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہو جاتا۔
اگر سوات جنگل ہے تو بھی وہاں جنگل کا قانون کسی بھی طرح جائز نہیں۔ کم از کم کسی بھی مہذب معاشرے میں تو ایسا ممکن نہیں۔اور ایک جمہوری حکومت کے دور میں تو یہ اور بھی بڑا جرم ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا ہم اس طرح کے فیصلوں سے اپنے آپ کو مہذب کہہ سکتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
’جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں‘
جناب عارف شميم صاحب ! جی ہاں ان خاندانوں کے لیے کوئی نعم البدل راستہ ڈھونڈنا چاہيے تھا۔ ناکہ يہ کہ ان کو سوات بدر کر ديا جائے۔ سوچنے کی بات يہ ہے جن لوگوں کو پکڑنے ميں قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے تمام تر وسائل کے باوجود ناکام ہيں۔ انہيں بيچاری خواتين يا بوڑھے ماں باپ بہن بھائی کہاں سے ڈھونڈ کر لائيں؟ مگر اس معاملے کا ايک اور پہلو بھی ہے۔ يہ ہماری گفتگو اے سی کی سامنے ليپ ٹاپ پر انگلياں چلاتے ہوئے بالکل ٹھيک اور معقول لگتی ہے مگر حالتِ جنگ ميں شايد حالات قطعی مختلف ہوتے ہيں اور وہاں کے فيصلے وہيں بيٹھ کر سمجھ آتے ہيں۔ غير معمولی حالات ميں کيے گئے فيصلے غير معمولی طور پر درست يا غلط ثابت ہوتے ہيں۔ اللہ ہمارے ملک پر رحم کرے اور اسے مشکل حالات سے جلد از جلد باہر لائے، آمين۔
خاکسار کے روز مرہ مشاہدہ میں یہ بات آئی ہے کہ انسانی حقوق کا علمبردار بننا بھی نام نہاد اور اندھی روشن خیالی کی دین ہے اور یہ بھی بطور ’فیشن‘ کے اسی طرح استعمال ہو رہا ہے جس طرح کہ ماں بولی کی بجائے اردو میں بات کر کے رعب جمانے کی کوشش کرنا اور پینٹ شرٹ پہن کر خود کو ’مہذب‘ ظاہر کروانے کی کوشش کرنا۔ حالانکہ سیانے عرصہ دراز پہلے کہہ چکے ہیں کہ چور کا بھائی کتنا ہی سادہ ہو، اپنی ذات اور رات کی مجبوری سے چھوٹا موٹا گٹھ کترا تو ضرور ہوگا۔ خاکسار اور خاکسار جیسے درجنوں معزز قارئین کی موجودگی میں کسی کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ باتوں کو گھما پھرا کر، بانس کو شہتیر بنا کر اور ’انسانی حقوق‘ کا ملمع چڑھا کر پاکستان کی جاں نثار اور ’حب الوطنی‘ جذبہ سے سرشار فوج کے خلاف ’پراپیگنڈہ‘ آسانی سے کامیاب ہو جائے گا۔
’کچھ ہوا تیز ہے، بارش کے ہیں آثار، مگر
مشعلیں ہاتھ میں تھامے ہوئے چلنا ہے ہمیں‘
آپ کی بات درست ہے کہ سوات میں جنگل کا قانون نہیں ہونا چاہیے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سوات کے لوگ اتنا کچھ برداشت کر چکے ہیں کہ اب ان میں کسی اور سانحے کو برداشت کرنے کی ہمت ہی نہیں رہی اور ذرا سی بات پر گھبرا کر وہ سخت فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ آپ نے اس طرح کا جنگل کا قانون برطانیہ میں بھی دیکھا ہوگا جب کئی پاکستانی طالبعلموں کو جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود برطانیہ بدر کر دیا گیا اور انہیں کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا گیا جس سے ان کا سارا سرمایہ ڈوب گیا اور ان کا تعلیمی کیریئر خاک میں مل گیا۔
شدت پسندوں کے خاندانوں کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ یقیناً قابل مذمت ہے مگر ان الزامات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیئں کہ اکثر دہشتگردوں نے اپنے خاندانوں کی مدد سے بھی دہشتگردی کی کچھ کارروائیں کی ہیں اور اگر یہ خاندان واقعی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں تو ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے تاہم عورتوں اور بچوں کو علاقہ بدر کرنا غلط ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فوج کی نگرانی میں ہی کئی قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کے گھروں کو تباہ کرنے اور ان کی رشتے داروں کو علاقہ بدر کرنے کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے جبکہ بی بی سی کو اس پر بلاگ لکھنے کا خیال کافی دیر سے آیا ہے۔
یہ بھلی کہی۔ کہاں جنگل کہاں ہمارا وطن۔ جنگل میں کم سے کم قانون تو ہوتا ہے نا۔
’یا رب، نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات‘
اُردو میں محاورہ ہے آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ یہ محاورہ سوات پر صادر آتا ہے۔ ہمیں کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ سوات کی قاضی عدالتیں کہاں گئیں؟ قانون نافض کرنے والے ادارے کہاں گئے؟ ایسا لگتا ہے عدالتیں این آر او میں پھنسی ہوئی اور قانون نافذ کرنے والے حکومتی وزراء کو تحفظ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ قانون واقعی اندھا ہوتا ہے۔ نا صرف اندھا بلکہ پاکستان میں لنگڑا بھی ہوتا ہے۔ جرم باپ کرے اور سزا پورے گھر والوں کو وہ بھی واہ کیا خوب فیصلہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا رہا تو اللہ ہی اس ملک کا مالک ہے۔
اس کا جواب تو زرداری دے سکتے ہيں۔
شميم صاحب! آپ نے بڑی افسوسناک و بھيانک تصوير پيش کی ہے۔ واقعی يہاں جنگل کا قانون ہی رائج ہے۔ يہ کيا بات ہوئي کہ کرے کوئی بھرے کوئی۔
ميرے خيال ميں جنگل کا قانون پاکستان يا اس طرح کے غريب ممالک کے قانون سے قدرے بہتر ہوگا کيونکہ اس قانون کا پتہ تو سبھی جانوروں کو ہوتا ہے اور وہ اپنے حساب سے بچ نکلتے ہيں۔ مثلاً طوطا ہری شاخ پہ بيٹھے تو بچ جائے گا اور بلی درخت پہ چڑھ جائے تو شير سے محفوظ رہے گی وغيرہ۔ ليکن يہاں تو پتہ ہی نہيں کب شامت آنے والی ہے ۔غريب جس کی آہ بھرنے والا کوئی نہيں ہوتا اس کے ساتھ بھيڑ بکريوں جيسا سلوک کيا جاتا ہے۔ فوج يا سياست ميں دس فيصد بھی عقلمند لوگ ہوتے تو ايسی کہانياں نہ سننا پڑتيں۔ نيز کم از کم عورتوں اور بچوں کو تو عزت فراہم کريں جنہوں نے آئندہ کے معاشرے کو جنم دينا ہے۔
جو بويا ہے وہ کاٹ رہے ہيں۔ صرف خانہ بدر کيا ہے، بموں سے تو نہيں اڑايا، جو يہ دوسروں کے ساتھ کرتے چلے آئے ہيں۔ اور کون سی زبان سمجھتے ہيں يہ لوگ۔ کم از کم اب ياد تو رکھيں گے کہ آگ گھر تک بھی آ سکتی ہے۔
آپ سے کس نے کہہ ديا کہ پاکستان بلکہ آج کل کی ساري دنيا ميں کوئی ملک مہذب اور جمہوری ہے۔ يہ دور جس کی لاٹھی اس کی بھينس کا ہے۔
يہ حکومت کی اسی طرح کی غلطی ہے جس طرح طالبان نامی گروہ کو کھلی اجازت دی گئی کہ وہ اسلام کے نام پر جو مرضی کرتے پھريں اور ہاتھوں کی لگائی گئی گانٹھوں کو دانتوں سے بھی کھولنا مشکل ہو گيا تھا۔ حکومت کو اس طرح بچگانہ حرکتوں کی بجائے قانون پر عمل کرنا چاہیے نہ کہ کبھی کسی ايک گروہ کو قانون اپنے ہاتھ ميں لينے دے اور نہ ہی کسی دوسرے گروہ کو۔ پتہ نہيں پاکستان کی حکومت کب بالغ ہوگی، ہوگی بھی يا نہيں۔ اور کسی بے گناہ کو کسی اور کے جرم کی سزا دينا گناہ، غير قانونی، شرمناک اور درندگی ہے۔ اگر يہ لوگ بلواسطہ يا بلا واسطہ کسی جرم ميں شريک نہيں تو ان کو اپنے گھروں کو واپس جانے ديا جائے اور اگر کسی کا گھر مسمار کيا گيا ہے تو اسے تعمير کيا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ جن لوگوں نے قانون اپنے ہاتھ ميں لے کر يہ قدم اٹھايا ہے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
صاحب جی سلام۔ غلطياں جب انڈے اور بچے دینے شروع کر دے تو ايسے ہی کام ہوتے ہيں۔ ان کاموں اور اقدامات سے شدت پسندی کو نيا رخ ملے گا۔ لگتا ہے يہ ٹيکنالوجی اسرائيل سے مستعار لی گئی ہے۔ ان اقدامات سے حکومت کی سنجيدگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ بزرگوں سے سنا تھا کہ اچھے لوگوں سے ہميشہ اچھے کام ہوتے ہيں۔
’کسی ایک شخص کے جرم یا گناہ کی سزا اس کے خاندان کو ملے یہ تو جنگل کا قانون ہے‘۔ اس جنگل سے باہر کوئی جگہ ہے کیا؟ محترم! مہذب معاشرے تو ابھی زمین ہموار نہیں کر پائے ہیں اور آپ نے صفائی اور کھاد ڈالنے سے بھی آگے کی بات کہہ دی۔
شاید ایف سی آر کا قانون آپ کی نظر سے نہیں گزرا۔ یہ آج کا واقعہ نہیں یہ سالوں سے یہاں ہوتا چلا آیا ہے۔ قبائلی علاقوں میں لوگوں کو ناصرف علاقہ بدر کیا جاتا ہے بلکہ ان کے گھروں کو بھی مسمار کر دیا جاتا ہے۔ جس قبیلے سے مجرمان کا تعلق ہو ان لوگوں کے کاروبار بند کر دیئے جاتے ہیں۔ ان کی دکانیں اور مارکیٹیں پورے پاکستان میں سیل کر دی جاتی ہیں۔ اور دوسرے علاقوں میں اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے اشخاص کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ میرے ایک پروفیسر دوست کو کوہاٹ میں تین دن تک حوالات میں بند رکھا گیا کیونکہ اس کے قبیلے کا ایک شخص کسی جرم میں ملوث تھا اور بچارا میرا دوست اس کو جانتا تک نہیں تھا۔
اسلامی جمہوريہ پاکستان کے محافظين کا انصاف لاجواب ہے۔
ہمارے معاشرے ميں جس طرح والدين، رشتہ دار اور دوست احباب مجرموں کو پناہ ديتے ہيں، ان کے ليے جاسوسی کرتے ہيں، لوٹ مار کا مال چھپاتے ہيں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھوکہ ديتے ہيں، اس لحاظ سے يہ سزا تو کچھ بھی نہيں۔ طالبانی قانون کے مطابق تو انہيں پھانسی ملنی چاہيے۔ جب والدين اور بہن بھائی، خودکش بمباروں کی کمائی پر پلتے ہيں، تو وہ بھی جرم ميں اتنے ہی حصہ دار ہوتے ہيں، جتنے خود کش حملہ آور۔ جس معاشرے ميں لوگ ايک دوسرے کے اتنے قريب رہتے ہوں، پل پل کی خبر رکھتے ہوں، بجائے قانون کے، مجرموں کی مدد کرتے ہوں، وہاں ايسا ہی ہوتا ہے۔ انسانوں نے خود اپنے معاشرے کو جنگل بنايا، پھر خود ہی جنگل کے قانون کی دہائی دينے لگے۔