صحرا کے نواب
جنوبی پنجاب میں صحرائے چولستان کے کنارے آباد کسانوں سے ملیں اور ان کا حال پوچھیں تو لگتا ہے کہ بہالپور کا نواب خاندان کسانوں کو اجاڑنے میں صحرا کا ساتھی بن گیا ہے۔
ضلع بہاولپور سے متصل چولستان کے صحرا کے سرحدی علاقوں میں جو کاشتکاری آج نظر آتی ہے کئی دہائیاں پہلے یہ زمینیں صحرا کا حصہ تھیں لیکن نواب آف بہاولپور اور ان کے جانشینوں نے بعض بے زمین یا چھوٹے کاشتکاروں کو یہ زمین کم نرخوں پر یہ فروخت کر دیں۔
ان محنت کشوں نے اپنے خون پسینے سے ان ریتلی زمینوں کو سینچا اور اس بنجر اراضی کو قابل کاشت بنا دیا۔ لیکن اب نواب خاندان کے چشم و چراغ اس زمین کو دوبارہ صحرا بنانے پر تلے نظر آتے ہیں۔
ہوا یوں کہ کئی برس بعد عدالت کے ذریعے نواب آف بہاولپور کے جانشینوں کے درمیان خاندانی وراثت کا معاملہ طے پایا اور نواب کی زمین کا بٹوارا ہو گیا۔ گڑ بڑ اس میں یہ ہوئی کہ صحرا سے متصل جو زمین کاشتکاروں نے جس ابن نواب سے خریدی تھی اس کے حصے میں قانونی طور پر زمین کا کوئی اور حصہ آیا اور جس کے حصے میں یہ زمین آئی وہ زمین کی خرید و فروخت کے پرانے معاہدوں کو کوئی وقعت دینے کے لیے تیار نہیں۔
اب بات ذرا قانونی ہو جاتی ہے لیکن ڈیرہ نواب سے صحرا کی جانب سفر کریں تو اس کے عملی اثرات ٹوٹے ہوئے مکانات کی صورت آپ کو دکھائی دیں گے جو ان کاشتکاروں کی بزور طاقت بے دخلی کی عملی شکل ہیں۔
نواب کے کارندے ہر روز مسلح ہو کر کسی گاؤں پہنچتے ہیں، اپنے نئے نویلے ملکیتی کاغذ دکھاتے ہیں، اگر ترس کھا لیں تو کچھ مہلت عنایت کرتے ہیں ورنہ کاشتکاروں کے گھر مسمار کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔
یوں ایک طرف سنگ دل نواب ہیں اور دوسری طرف بے رحم صحرا۔ بیچ میں کاشتکار ہیں جو کبھی اپنی بنجر ہوتی زمین کی طرف دیکھتے ہیں، کبھی نظر اٹھا کر آسمان کو اور کبھی حاکم وقت کی جانب۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘کسی کے گھر کو گِرا کر بنائیں اپنا مکاں
اگر یہ ہنر ہے تو ہمیں بے ہنر ہی رہنا ہے‘
آصف صاحب آپ نے ايک اہم پوائينٹ کو اہميت نہيں دی جو کہ قانون يا عدالت کی عدم توجيحی سے پيدا ہوا۔يعنی جس کے حصے ميں جو زمين آئی بانٹ دی دوسرے لفظوں ميں قانون نے بندر بانٹ والا طريقہ اپنايا۔يہ قدم تو قانون والوں نے اٹھانا تھا تاکہ جو جہاں بيٹھے ہيں ان کو ڈسٹرب نہ کيا جائے اور اس تقسيم کے نتيجے ميں بلاوجہ انسان آپس ميں نہ لڑيں۔اصل مسئلہ يہ ہے کہ پاکستان ميں لاء اينڈ آرڈر ايک مستند ذريعہ نہيں رہ گيا۔آپ نوابوں کو چھوڑ کر پاکستان کے کسی بھی حصے ميں چلے جائيں آپ کو جس کي لاٹھی اس کی بھينس والا قانون نظر آئے گا۔
کفر کی حکومت رہ سکتی ہے مگر ظلم کی نہں
حضرت علی رح
بہت دکھ ھوا وھ کسان جو اپنا دن رات ان زمينون کو ديا اج پھر نوابون کےپہیوں تلے روندا جا رھا ھے ليکن پنجاب کے ان نوابون سے نقل کر سندھ کو ديکھو يہان تو پيرون ميرون وڈيرون جاگيردارن نے انسانيت کو لاش بنا کر بوري ميں بند کيا ھوا ھے،سندھ کے صحرائی گاؤں میں آج بھی بےزمین انسان غلام ھے نسلون سے،کيا کيا نہيں ھوتا ان کے ساتھ۔ یہ کرنے اور کرانے والے را يا موساد والے نہيں بلکہ وھ سفيد پوش ھين جو اسمبلیوں میں قانون بناتے ھيں اس ملک کے ليئے،سندھ کا ايک منسٹر جو زرداری کا يار ھے حيدراباد بائی پاس پر 35 ايکڑ زمين پے قبضا کيا اور ساری زمين مفت مين لے لی اس زمين کی مارکيٹ ويليو 2 کروڑ پر ايکڑ ھے،يے پير مير وڈيرے اس جنگل کے شير بادشاھ کی طرح ہیں جو چاھے بچے پيدا کرے چاھے انڈے دے،کہنے کامقصد يے جب حکومتی منسٹر خود قبضہ کرا سکتا ھے تو غريب کس کھت کی مولياں ھيں
دراصل جہاں عدليہ اور قانون نافز کرنے والے ادارے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہيں تو لوگ ايسے ہی مسائل کا شکار ہوتے ہيں پھر وہاں جنگل کا قانون عملی شکل اختيار کر کے طاقتور کو ہر قسم کی آزادی کے حقوق دے ديتا ہے- جو طاقت ور ہے اسکی ہر بات جائز ہوتی ہے-کمزور کچھ بھی کہتا رہے شنوائی کوئی نہيں-اگر نواب صاحب کی زمينوں کا بٹوارا ہوا ہے تو ان زمين داروں کا تو قصور نہيں- جن کے حصے ميں زمين آئی بيچی ہوئی زمين پر ملکيت کس حيصيت سےدعوا کر کے خالی کروا رہے ہيں- اس ملک ميں ايسی روايات شروع سے جڑ پکڑ گئی ہيں کمزور اپنا حق نہيں لے سکتا بلکہ وہ دست برداری ميں عافئيت سمجھتے ہوئے اپنا حق اس لئے چھوڑ ديتا ہے کہ مزيد جانی اور مالی نقصان اسے نشان عبرت کا نمونہ بنا ديں گے- عدليہ سے انصاف ملنا کئ دھائوں کا نسخہ ہےجس کے انتظار ميں اسےکتنے کرب اور آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا اور طاقتور مخالف اسے کتنے جانی اور مالی نقصانات سے درکنار کر چکيں- اسی لئے يہ ويران اور ٹوٹے مکانات اس بات کا ثبوت پيش کرتے دکھائی ديتے ہيں-
اسے کہتے ہيں انصاف کا فقدان
صاب جی سلام„„ظلم ھر وقت جاگيرداروں ھی کی کوکھ سے جنم ليتا دکھائ ديتاھے„„اس تازہ ظلم عدالت بھی کسی نہ کسی صورت شامل ھوگئ„„عدالت کو ان معاملات کو باريک بينی سے ديکھنا چاھۓ تھا„„معاملہ جب اس نا انديشی سے بڑھتاھے تو اور پيچيدگياں اس سے جنم ليتی ھيں„„„غريب ھاريوں کو عدالتی آزادی کا کيا فائدہ ھوا„„ءجب تک نظام ٹھيک نہيں ھوگا اسی طرح بيماريوں اور خرابيوں کو اکسٹنشن ملتی رھے گی
نوابوں کا حشر عنقریب غریب کاشتکاروں جیسا ہونے والل ہے۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔
فاروقی صاحب!ايک اس علاقےکا کيا کہنا سارا ملک ہی ظلم واستحصال کرنے والوں نے يرغمال بنايا ہواہے
جس دن اللہ کا نطام نافط گايا جايگا سب درست ھو جايگا ايک تو اسمان کی طرف منہ کرکے رحم کی بہک اور انصاف مانگتے ہين او ر دوسری طرف اسی اسمان کے بناے ھوے نطام کو حود تھورتے بھين اور چيحتے ھين کہ طلم ھو رھا ھے ھمين شرم انی چاھيے حود کو مسلمان کہتے ھوے
پاکستان ميں جس کی لاٹھی اس کی بھينس کا قانون رائج ہے اور مظلوم وغريب کا کوئی پرسان حال نہيں ابھی حال ہی ميص چند ہفتے گزار کر آيا ہوں لوڈشيڈنگ ، مہنگائی ،بے روزگاری اور لاقانونيت نے عام آدمی کی زندگی اجيرن بنا رکھی ہے ليکن کوئی ان کا پرسان حال نہيں جب کہ دوسری طرف رشوت خور ، قبضہ گروپ ، چوراچکے اور منشيات فروش معاشرے کے معززين بن گئے ہيں اور معاشرہ بحثيت مجموعی اتنا بے حس ہوچکا ہے کہ برے کو برا کہنے کا رواج بھی ختم ہو گيا ہے ۔ قبضہ گروپ کسی بھی ايک سے زائد مالکان والے خسرہ نمبر سے کچھ حصہ خريد ليتے ہيں اور پھر پٹواريوں کو ساتھ ملا کردوسروں کی زمينوں پر قبضے اور واگزاری کے نتيجے ميں بھاری رقوم ڈکجر ليتے ہيں ايسے ميں وہاں مظلوم کاشتکاروں کے بارے ميں آواز بلند کرنا يقيناُ بہت بڑی نيکی ہے اور اس کا اجر الللہ تعاليٰ کے پاس ہے
جناب ہماری عدليہ کا يہ ہی وطيرہ ہے يہ ہمشہ طاقت ور کے آگے جھکی ہے اور طاقتور کا ساتھ ديا ہے۔
ايسے ہی مظلوم اور بے سہارا لوگ جب اپنے جينے کے سہارے کے لئے تنظيموں کا سہارا ليتے ہيں اور پھر يہ تنظيميں اپنے حقوق کے لئے لڑنے پر اکساتی ہيں انھيں مسلح کرتی ہيں اور جب ان ميں سے کچھ نوجوان جذبات ميں آکر ھتيار اٹھاتے ہيں تو قانون فوراً حرکت ميں آجاتا ہے مقدمات بنتے ہيں پھر يہ نوجوان مکمل طور پر ان تنظيوں کے شکنجے ميں جکڑ جاتے ہيں يہ تنظيميں ان سے جو بھی کام لينا چاہيں ليتی ہيں ۔آج معاشرہ مختلف جرائم کی لپيٹ ميں ہے اور جو ديشت گردی کا سامنا ہے اس کا خام مال تو ہمارے وہ ادارے فراہم کر رہے ہيں جن کا کام انصاف دينا ہے ۔