| بلاگز | اگلا بلاگ >>

میڈیا پر ملبہ۔۔۔

اصناف:

ہارون رشید | 2010-07-29 ،15:06


ملبہ ناصرف مارگلہ پر گرا بلکہ میڈیا بھی اس کی زد میں آیا ہے۔ اور کیوں نہ گرے، جب وہ آنکھیں بند کرکے اہم ترین ذمہ داران کے بیانات نشر اور شائع کر دیتے ہیں۔ اس کی کچھ قیمت تو میڈیا کو ادا کرنی ہوگی۔ ایئر بلو کے حادثے نے یہ ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ 'اعلی ترین حکومتی ذمہ داران' بھی میڈیا کے دباؤ میں بہہ سکتے ہیں۔ اور وہ بھی نیم پختہ اطلاعات کو چینلز کی 'بریکینک نیوز' کی بھوک مٹانے کے لیے فراہم کرسکتے ہیں۔


اکثر لوگ ایئر بلو کے 'بچ جانے والے پانچ مسافروں' کی افواہ کے لیے میڈیا کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ خبر وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے ٹی وی چینلز کو دی اور وہ ہسپتال بھی بتا دیا جہاں 'ان زخمیوں' کو طبی امداد کے لیے لے جایا گیا۔ صحافیوں کے علاوہ پریشان حال رشتہ داروں کی بھی دوڑیں لگا دیں۔ میڈیا تو شاید عادی ہے لیکن رشتہ داروں کے ساتھ شاید اس سے بڑا مذاق نہیں ہوسکتا تھا۔

پھر بلیک باکس کے ملنے کی خبر بھی میڈیا نے نشر کر دی۔ اس کی وجہ وفاقی وزیر اطلاعات قمر زماں کائرہ تھے جنہوں نے 'کسی باکس' کے مل جانے کو بلیک باکس سمجھ کر میڈیا کو یہ غیرمصدقہ اطلاع منتقل کر دی۔ رات گئے تاہم انہوں نے اخباری کانفرنس میں اس سے انکار کر دیا۔

سانحات اور حادثات کے بعد میڈیا کے ساتھ ساتھ وزراء کی بھی تربیت ہونی چاہیے۔ خبر اور نیم پختہ اطلاع میں فرق سے انہیں آگاہ کیا جانا چاہے۔ آج صبح کسی نے ایس ایم ایس بھیجا کہ ایسی رپورٹنگ کے لیے میڈیا کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کرنا چاہیے۔ اب اس عزت کا حقدار کون ہے؟

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 16:53 2010-07-29 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    جس صاحب نے بھی ایس ایم ایس بھیجا ہے بلکل بجا بھیجا ہے۔ بہرحال خاکسار سمجھتا ہے تھپڑ کا حقدار پرنٹ، الیکٹرانک اور سب سے بڑھ کر ‘سائبر میڈیا!‘ زیادہ ہے بہ نسبت وزیرِ داخلہ کے۔ وجہ یہ ہے کہ وزیرِ داخلہ ایک سیاسی شخصیت۔ ‘میڈیا‘صرف تھپڑ کا ہی نہیں بلکہ اچھی خاصی پھینٹی کا حقدار ہے کہ اس کا براہ راست تعلق پاکستان اور دنیا بھر کی عام عوام سے ہوتا ہے اور اس کی کوئی بھی بات یا خبر فوری طور پر ‘افواہ‘ کے ساتھ ‘پراپیگنڈہ‘ کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس لیے میڈیا کی یہ اخلاقی و قانونی و سماجی و سیاسی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کوئی بھی خبر نشر کرنے سے پہلے اپنے طور اس کی خوب چھان پھٹک کر لے۔ میڈیا کو اندھا دھند حکومتی شخصیات، غیرملکی میڈیا، اپوزیشن یا کسی بھی شخص کے بیان کو ‘بریکنگ نیوز‘ چلانے سے قبل متعلقہ ‘سپیشلائزڈ‘ افراد سے تصدیق کر لینا چاہیے۔ ‘بلیک باکس‘ ہر صورت میں تلاش کرنا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر جلد یا بدیر ممکنہ ‘استعماری پراپیگنڈہ‘ کو آسانی سے ‘تورا بورا‘ نہیں بنایا جا سکتا۔ آخر میں عرض ہے کہ محسوس تو یہی ہو رہا ہے کہ میڈیا کے خلاف یہ بلاگ دراصل اس غم و غصہ کا اظہار ہے کہ میڈیا نے دو امریکی شہریوں کی طیارہ میں موجودگی کو رتی بھر بھی ‘کوریج‘ نہیں دی۔ کیا خیال ہے!

  • 2. 17:21 2010-07-29 ,Dr Alfred Charles :

    ميڈيا کو مورود الزام ٹہرانا تو بہت آسان ہے کيونکہ بريکنگ نيوز کے چکر ميں يہ لڑتے ہوئے لڑکھڑا جاتے ہيں۔ اس سے زيادہ تو حکومتی عہديدار، سرکاری اہلکار ذمہ دار ہيں۔ سب سے زيادہ باخبر وزراء رحمن ملک اور کائرہ صاحب نے کل جو گل کھلائے وہ سب کے سامنے ہيں۔ ميڈيا والوں کو تو ہر کوئی رشد وہدايت کی اور اصلاح کا مشورہ دے سکتا ہے مگر ان وزراء کا کيا کيجئيے جو بڑے ڈھڑلے سے بلکہ سينہ ٹھونک کر جھوٹے بيان داغتے ہيں اور پھر چند ساعتوں کے بعد يکسر مختلف موقف ليکر سامنے آجاتے ہيں۔ سب کو احتياط سے کام کرنا چاہييے اور اپنی اپنی اصلاح کرلينی چاہيئے۔

  • 3. 17:35 2010-07-29 ,Khadim Raza :

    آج صبح کسی نے ایس ایم ایس بھیجا کہ ایسی رپورٹنگ کے لیے میڈیا کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کرنا چاہیے۔ اب اس عزت کا حقدار کون ہے؟

  • 4. 20:38 2010-07-29 ,وحیداللہ آفریدی :

    جس صاحب نے ایس ایم ایس کیا ہے وہ کسی طور میڈیا کے کوڈ آف ایتھکس یا اصولوں سے باخبر نہیں ہوگا۔ البتہ آپ اس ملک کے نامی گرامی صحافی ہیں اور آپ صورتحال سے مکمل طورپر باخبر رہتے ہیں۔ میرے خیال میں میڈیا کا اس میں کوئی قصور نہیں ہوتا جب وہ کسی ایسے ذمہ دار شخص کی خبر نشر کرتی ہے۔ محترم!جس صاحب نے یہ ایس ایم ایس بھیجا ہے اس کے خدمت میں عرض ہے کہ اس خبر کو نشر کرنے سے ایک چیز اور بھی سامنے آتی ہے وہ یہ کہ آپ کاملک کتنا بدقسمت ہے جس کے حکمران جھوٹے ہونے کے ساتھ ساتھ فریبی بھی ہیں۔ کیونکہ وہ وقتی طورپر میڈیا اور عوام کو خاموش کرانے کیلئے کچھ بھی بولتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جاہل اور غیر سنجیدہ حکمرانوں سے نجات دلائے۔

  • 5. 21:31 2010-07-29 ,ساحر خان :

    ميڈيا آج کل اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ کوئی بھی خبر لمحموں ميں دنيا ميں پھيل جاتی ہے۔ اس کا اثر بھی اتنا ہی جلد ہوتا ہے۔ اس کی ايک مثال امريکہ ميں ايک اہم عہدہ دار کی پرخاستگی فاکس نيوز کی ايک غلط خبر بنی اور بعد ميں حکومت کو اپنے کۓ پر معافی مانگنی پڑی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ميڈيا اور حکومت کے ذمہ داران کو ذمہ داری کا ثبوت دينا چاہيۓ کيونکہ دونوں کا عمل دور رس اثرات کا حامل ہے۔ بہرحال ميڈيا پر صدفيصد اعتبار کرنا بہت بڑی غلطی ہے کيونکہ اس نے تو اپنی خبر بيچنی ہوتی اور اس جلد بازی ميں اس کے پاس خبر کو پرکھنے کا وقت ہی نہيں ہوتا- مگر کم از کم حکومت کے ايک ذمہ دار وزير کو تو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہيۓ۔ يہ تو کوئی دليل نہ ہوئی کيونکہ وہ ايک سياسی شخصيت ہے تو جو مرضی غلط صحيح کہتا جاۓ۔ عوام کے ديۓ عہدے کی کچھ ذمہ دارياں بھی تو ہوتی ہيں۔

  • 6. 21:39 2010-07-29 ,aftab ahmad :

    میڈیا کو قومی مفاد ناکہ چینل مالکان کے مفاد کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

  • 7. 22:25 2010-07-29 ,Nadeem Ahmed :

    پاکستانی تاريخ کی نااہل حکومت نے بڑی صفائی سے اس افسوسناک واقعہ کا ملبہ ميڈيا پر ڈال ديا ہے، جبکہ ميڈيا نے تو وہی کہا اور دکھايا جو نالائقوں کی فوج بڑھ چڑھ کر کہہ رہی تھي۔ سيدھی سی بات ہے کہ نائن اليون کے بعد ہر ہوائی حادثے کی بابت پہلا شک دہشت گردوں پر جاتا ہے، اور جب ہوائی حادثے کی پہلی خبر رحمان ملک صاحب دے رہے ہوں، اور وہ بھی چٹے جھوٹ سے، تو پھر چل سو چل۔ يہ ميڈيا کا احسان ہے کہ اس نے ايسے چند سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی زيادہ کوشش ہی نہيں کي، جو عام آدمی کے ذہن ميں کلبلا رہے ہيں- مثلاً--
    کيا جہاز گرا ہے، گرايا گيا ہے يا پہاڑی سے ٹکرايا ہے؟ ياد رہے کہ تينوں ميں زمين آسمان کا فرق ہے-
    اب تک بليک باکس کيوں نہيں ملا- جبکہ بليک باکس ميں سے نکلنے والے سگنل سے اسے منٹوں ميں تلاش کيا جا سکتا ہے-
    جہاز، نو فلائی زون کی طرف کيوں آيا، جبکہ اس کا انتہائی تجربہ کار کپتان اس بات کو اچھی طرح جانتا تھا-
    اگر جہاز کا رخ نو فلائی زون کی طرف ہوگيا تھا، تو سيکيورٹی کے ذمہ داروں نے کيا کاروائی کي- اگر کاروائي نہيں کي، تو کيوں نہيں کي؟
    رحمان ملک اور کائرہ صاحب کا جھوٹ بول بول کر، کنفيوژن پھيلانے کی ڈيوٹی کس نے لگائي؟
    اور اب سارا ملبہ ميڈيا پر اس ليۓ تو نہيں ڈالا جا رہا کہ وہ قوم کی نفرت سے ڈر کر اصل حقيقت تک پہنچنے کی کوشش نہ کرے-

  • 8. 23:59 2010-07-29 ,Asjid :

    پاکستانی سیاست بری ہے۔

  • 9. 0:04 2010-07-30 ,Aqeel Ahmed :

    اس میں حکومت کا کیا قصور ہے۔

  • 10. 4:36 2010-07-30 ,محمد سلطان ظفر :

    ان سب سے بڑھ کر مجھے سیکرٹری اطلاعات کا یہ بیان لگا کہ ’’میں نے، وزیراعظم یا صدر صاحب نے تو کوئی غلطی نہیں کہ کچھ چھپائیں۔ جن کی غلطی ہے اُن کو ہم سامنے لاکر سزادیں گے‘‘ یعنی اگر صدر، وزیر اعظم یا وزیر کوئی جرم یا غلطی کریں گے حکومت اُس کو جرم کو چھپائے گی لیکن کو ئی عام آدمی غلطی کرے گا تو پھر اُسے ضرور سزا ملنی چاہیے۔
    صدقے جاوں ان وزیروں کے۔۔۔۔۔

  • 11. 4:38 2010-07-30 ,Kashif Naveed :

    محترم ‘میڈیا کو کیوں الزام دے رہے ہیں؟ میڈیا تو کسی واقعہ کی تصدیق واقعہ سے متعلق اہلکاروں، وزیروں اور مشیروں سے کرتا ہے۔ اگر وزیر مشیر خود ہی غلط بات کہیں تو اس میں میڈیا کی ذمہ داری کہاں سے آ گئی۔ وزیر اطلاعات کہہ دیتے ہیں کہ بلیک باکس مل گیا ہے تو پھر میڈیا کے لئے اس سے بڑی اور کیا بات ہے جو ایک وفاقی وزیر کہہ رہا ہے اور پھر میڈیا نے تو وفاقی وزیر کے الفاظ نشر کئے ہے۔ جو بیان تو کہلایا جا سکتا ہے خبر نہیں‘میڈیا نے یہ تو نہیں کہا کہ میڈیا کے ذرائع سے یہ ”خبر“ ملی ہے میرا خیال ہے ”بیان“ اور ”خبر“ میں فرق ہوتا ہے اور میڈیا دیکھنے اور سننے والوں کو اس فرق سے آگاہ ہونا چاہئے۔

  • 12. 5:24 2010-07-30 ,Riffat Mehmood :

    يہ بات تو روز روشن کی طرح عياں ہے کہ اس نئی نئی آزادی کے لئے ازخود ميڈيا ضابطہ اخلاق طے کرے تاکہ غلط اور غير ضروری اطلاعات کے مضمرات کا سدباب ہوسکے۔ ميڈيا ايک طاقتور اطلاعات کا ميڈئيم ہے اسے وہی کردار ادا کرنا چاہيے۔ اس حادثہ سے متعلق بلا تصديق اطلاعات کی ترسيل کرنے والوں کا محاصبہ بھی ضروری ہے۔ اس عمل سے ميڈيا کو سبق بھی ملنا چاہيئے۔ ان کی رپورٹنگ پر لوگ تجزيے بھی کرتے ہيں جس کی بنياد پر مسائل الجھ بھی جاتے ہيں۔ اصل صحافت زرد صحافت کا رخ اختيار کر جاتی ہے۔ وزير موصوف کو بھی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذمہ دارانہ بيان دينا چاہيئے وہ حکومت کی نمائندگی کر رہے ہيں۔ اس افسوسناک واقعے پر ايک بڑی تعداد غم ميں مبتلا ہے۔ ايسی گھڑی ميں لوگوں کے زخموں پر مرحم رکھا جاتا ہے نہ کہ انہيں کوفت ميں مبتلا کر ديا جائے۔

  • 13. 8:04 2010-07-30 ,Fakhar Rizvi :

    شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ ایسے وزیروں سے اب حکومت کو اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ میڈیا کا کردار بھاگتے بھوت کی لنگوٹ ہی سہی کے مصداق نمبر میں بنانے کے چکر میں ہے۔

  • 14. 8:25 2010-07-30 ,فرحا :

    رحمان ملک صاحب کے بیانات کو تو کبھی بھی سچ نہیں ماننا چاہیے۔ ان کے بیانات محض مذاق کے سوا اور کچھ نہیں ہوتے۔ قمر الزماں کائرہ کا کوئی عزیز اس جہاز میں موجود ہوتا تو انہیں احساس ہوتا کہ اس قدر غیر ذمہ دارانہ بیان لواحقین کے لئے کس تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔ باقی رہا میڈیا تو افسوس کے ساتھ ہمارا میڈیا تماشا دیکھنے اور دکھانے کا قائل ہے۔ غیر ذمہ داری اور بے حسی کا مظاہرہ کرنے میں ہمارا الیکٹرانک میڈیا خصوصی طور پر ایوارڈ کا حق دار ہے۔

  • 15. 10:29 2010-07-30 ,جج بادشاہ،وولنگونگ آستراليا :

    صحيح فرمايا آپ نے ميڈيا آنکھيں بند کرکے غير ذمہ دارانہ بيان دے ديتے ہيں ان کو بی بی سی اردو ڈاٹ کم سے ہی کچھ سيکھ لينا چاہيۓ مثلاً وہ قائرين کے تبصرے انتہائی سوچ بچار کے بعد تين دن بعد شائع کرتے ہيں اور ذرا سا بھی شک ہو تو تمام کے تمام ردی کی ٹوکری کو دے ديتے ہيں۔ انڈيا اور سری لنکا کا ميچ ختم ہونے کو ہے اور ابھی تک شہ سخی ميں انڈيا کا تيسرے دن کے اختتام والا سکور درج ہے اور جب اپنے نمائندے سے آنکھوں ديکھی رپورٹ ملے گی تو اس کو اپ ڈيٹ کريں گے۔ پرانی خبريں مين پيج سے اس ليۓ نہيں اٹھئی جاتيں کہ يہ سب کے ليۓ چيلنج ہے کہ کوئی ان کو غلط ثابت کرے۔يہ ہوئی نہ صحافت۔

  • 16. 11:28 2010-07-30 ,ikram sadiq :

    میرے خیال میں ایک ایسا کوڈ ہونا چاہیے کے عوام کے معصوم جذبات کے ساتھ کھیلنے والا میڈیا رپورٹوں اور چینلز کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔

  • 17. 11:44 2010-07-30 ,Qaiser Mahmood :

    آج کل میڈیا بہت منہ زور ہوگیا ہے۔ کسی بھی خبر کو بلاتصدیق نشر کر دیا جاتا ہے۔ پھر بعد میں اس کی تردید کی جاتی ہے۔ مگر تب تک وہ خبر اپنا اثر چھوڑ چکا ہوتا ہے۔

  • 18. 14:04 2010-07-30 ,ZESHAN QADIR MALIK, LUTON UK :

    میرے خیال میں کوئی پہاڑ نہیں گرا صرف بی بی سی والوں کو مزا آتا ہے ایسے دوسرے ملکوں کی میڈیا کا مذاق اڑانے میں۔ حالانکہ بی بی سی کبھی بھی ایک غیر جانبدار ادارہ نہیں رہا اور اس کی واضع مثال غزا کے مظلوم مسلمانوں کی امدادی کارروائیوں کیلئے میڈیا پر تشہیر کرنے سے بی بی سی والوں نے یہودیوں کے ڈر سے معذرت کرلی تھی۔ دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے بی بی سی اپنا قبلہ درست کرے۔ اس کو غیر جانبدار رویہ اپنانا ہوگا۔ تاکہ یہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکے۔ شکریہ

  • 19. 17:42 2010-07-30 ,Abbas Khan :

    لوگوں کو ميڈيا کی تمام شاخوں ميں صرف ٹی وی کے کچھ پروگراموں پر اعتراض ہے- ٹی وی ريموٹ ميں دو بٹن ہوتے ہيں، ايک سے چينل چينج ہوتا ہے اور دوسرے سے ٹی وی بالکل بند- اگر ريموٹ نہيں، تو ٹی وی کی تار کھينچ ديں- پورا چسکا بھی ليتے ہيں، اور اعتراض بھی کرتے ہيں- ويسے ہميں تو اعتراض کرنے والوں کی بجائے پسند کرنے والوں کی ذہنی حالت پر زيادہ شک ہوتا ہے، اس ليۓ ايسے پروگرام ديکھنے سے ہميشہ کے ليۓ توبہ کر رکھی ہے-

  • 20. 18:05 2010-07-30 ,Jehangir Rahujo :

    ميڈيا آنکھيں بند کرکے غير ذمہ دارانہ بيان دے ديتے ہيں.کسی بھی خبر کو بلاتصدیق نشر کر دیا جاتا ہے۔ پھر بعد میں اس کی تردید کی جاتی ہے۔صحيح فرمايا کہ ميڈيا آج کل اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ کوئی بھی خبر لمحموں ميں دنيا ميں پھيل جاتی ہے۔ اس کا اثر بھی اتنا ہی جلد ہوتا ہے۔ اس قدر غیر ذمہ دارانہ بیان تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔ جس کی بنياد پر مسائل الجھ بھی جاتے ہيں بہرحال ميڈيا پر صدفيصد اعتبار کرنا بہت بڑی غلطی ہے .

  • 21. 23:42 2010-08-01 ,Qazi Muhammad Yasir :

    سارے معاملے کا میڈیا کو دوش دینا، کسی صورت درست نہیں ہے۔ ایک میڈیا ہی تو ہے جو نااہل وزراء کے غیرذمہ دارانہ بیانات سامنے لارہا ہے۔ تاکہ آئندہ عوام ان کا محاسبہ کرسکیں۔ جہاں تک الیکٹرانک میڈیا کا تعلق ہے یہ ارتقاء کے عمل سے گزر رہا ہے اور اس نے کئی اہم معاملات میں غیرجانبداری سے فرائض سرانجام دئیے ہیں۔ ہاں میڈیا ظالم اور مظلوم کے معاملے میں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ جس پر کچھ لوگوں کوضرور اعتراض ہوگا۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔