یہ راکھ!
فلائٹ ای ڈی ٹو زیرو ٹو کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہر کریش ہونے والے طیارے کی قسمت ہے۔ ایک سو باون لاشیں چند کلومیٹر کے دائرے میں بکھر گئیں مگر ملبہ دور دور تک جا گرا۔
مارگلہ سے اڑنے والے سیاہ تیز دھار دھاتی ٹکڑوں نے کراچی میں ائر ہوسٹس حنا عثمان کے گھر کی چھت پھاڑ دی۔ چار روز پہلے شادی کرنے والے محمد اویس اور عروسہ کے بیڈ روم کو آگ لگ گئی۔ حیدرآباد میں پریم چند کی ڈیوڑھی زمیں بوس ہوگئی۔ دیر میں محمد شفیع کا حجرہ پہاڑی سے پھسل کر دریا میں جاگرا۔ موگا دیشو میں سماتر بشیر کی ماں کے سر میں ٹکڑا پیوست ہوگیا اور امریکی فٹ بالر میشا داؤد کے لان کی کیاریوں سے دھواں اٹھنے لگا۔
گیلے پہاڑوں کے درمیان سے سفید دھواں اٹھتے ہی مارگلہ کی ترائی میں بدحواسوں کا میلہ سج گیا۔ آناً فاناً سٹال کھڑے ہونے لگے۔
معلومات کے خریداروں کا اس قدر ہجوم کہ کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔
یہ پمز ہسپتال کا سٹال ہے۔ جہاں تسلیوں کے گولے گنڈے بیچے جا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد یہاں اعضا سے بھری گٹھڑیاں لائی جاویں گی، بدحواس لوگوں کے سامنے کھول دی جائیں گی اور تقسیم ہوجائیں گی۔ وہ نیشنل ڈز آسٹر مینجمنٹ سیل کا اطلاعاتی سٹال ہے جس پر موٹا موٹا لکھا ہوا ہے کہ برائے کرم ریسکیو ہیلی کاپٹرز کی پروازوں کی تعداد کے علاوہ ہم سے کچھ نہ پوچھا جائے۔ برابر میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کیبن ہے جہاں کاؤنٹر پر کھڑے رضاکار انتظار کر رہے ہیں ان احکامات کا کہ انہیں کیا بیچنا ہے اور کیا نہیں۔ اس کے سامنے پولیس، فوج اور رینجرز کا مشترکہ ٹینٹ لگا ہوا ہے مگر شائد انہیں کوئی بتانا بھول گیا ہے کہ میلے میں کسے روکنا ہے اور کسے داخل ہونے دینا ہے۔ بدحواس لوگوں اور رضاکاروں کی باوردی لوگوں سے تکرار کا سب سے زیادہ شور یہیں سے اٹھ رہا ہے۔
میلے کے عین وسط میں وزیرِ داخلہ رحمان ملک خالی کنستر پر کھڑے منجن بیچ رہے ہیں، 'مہربانو قدر دانو! آپ کو خوش خبری دیتا ہوں کہ پانچ لوگ زندہ بچ گئے ہیں۔ معاف کرنا میں کہہ رہا تھا کہ پانچ لوگ زندہ مل گئے پھر وہ مرگئے'۔
کچھ فاصلے پر وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ میگا فون پکڑے آموں کی دو خالی پیٹیاں جوڑ کر کھڑے ہیں۔ 'بھائیو اور بہنو! اس مسخرے کی باتوں میں نہ آئیے گا۔ یہ عادت سے مجبور ہے۔ میں خوش خبری دیتا ہوں کہ بلیک باکس مل چکا ہے۔ تھوڑی دیر میں بس عقدہ کھلنے والا ہے۔ معاف کرنا میرا مطلب ہے کہ بلیک باکس نہیں ملا ۔۔۔ ہم پھر بھی عقدہ کھولے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے'۔
میلے کے بالکل شروع میں کچھ ایمولینسیں اور ان سے کہیں زیادہ وہ ویگنیں پارک ہیں جن پر ڈشیں نصب ہیں اور سیاہ، لمبی لمبی اور موٹی تاریں ویگنوں سے سانپوں کی طرح نکل نکل کر اس خالی میدان تک رینگ رہی ہیں جہاں میڈیا کا تیز رفتار رولر کوسٹر کبھی بلندی پر جا رہا ہے تو کبھی تیزی سے نیچے آ رہا ہے تو کبھی بل کھاتا ہوا زن سے گزر رہا ہے۔
رولر کوسٹر پر کھچا کھچ بیٹھنے والوں کے جوش و خروش کا اندازہ ہا ہو کے فلک شگاف زیرو بم سے لگایا جاسکتا ہے۔ سب رولر کوسٹر سواروں کے سینے پر بیج لگا ہوا ہے۔ شاہد مسعود ایوی ایشن ایکسپرٹ ، حامد میر سابق جمبو پائلٹ، نصرت جاوید ریڈیو آپریٹر، طلعت حسین ائرکموڈور، مہر بخاری فلائنگ انسٹرکٹر، مبشر لقمان فلائٹ مینٹیننس انجینیر، کامران خا۔۔۔
رات ہو چلی ہے۔ دن بھر کے تھکے ہارے بدحواس لوگ برساتی اندھیرے میں رفتہ رفتہ گم ہو رہے ہیں۔ ایک آدھ کے سوا باقی سٹالز والے اپنا اپنا مال پیٹیوں میں واپس رکھ رہے ہیں۔ صبح تک پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کل اس میدان میں پندہرواں کل پاکستان فضائی حادثہ فیسٹیول منعقد ہوا تھا۔ صرف ٹین کا ایک کنستر، آموں کی دو خالی پیٹیاں اور بدحواسوں کی سسکیوں کا کچرا رہ جائے گا۔
سینکڑوں اور ہزاروں کلومیٹر پرے ائر ہوسٹس حنا عثمان، نویلے دولہا اویس، پریم چند، محمد شفیع، سماتر بشیر اور میشا داؤد کے گھر سمیت لگ بھگ ڈیڑھ سو چھتوں پر صبر کی راکھ اترنا شروع ہوجائےگی۔ آہستہ، آہستہ ، آہستہ ۔۔۔
یہ راکھ اس رات کا ثمر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
تبصرےتبصرہ کریں
وسعت اللہ صاحب بلاگ میں اتنی تلخی کی کیا ضرورت تھی کہ دکھ اور رنج سے دل جلنے لگے ۔ آخر سنتا کون ہے ؟ نیوز چینلز کے لیے یہ فقط اک خبر تھی جس نے ٹی وی سکرینز کو دو دن تک گرمائے رکھا اور اب یہ خبر سیلابی ریلوں کی کوریج کے ساتھ کب کی بہہ چکی ہے ۔
جناب وسعت اللہ خان صاحب! بدقسمت طیارہ اپنی منزل کے بالکل قریب پہنچ کر اسلام آباد میں گرا۔ لیکن اس میں مرنے والوں کا غم، درد و الم پاکستانیوں نے پوری دنیا میں محسوس کیا۔ اللہ رب العزت مرحومین کے درجات کو بلند اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔ ہماری ہمدردیاں پسماندہ فیملیز کے ساتھ ہیں۔ اس بلاگ میں جس طرح آپ نے پورے منظر کا نقشہ کھینچا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کو پڑھ کر بدن کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ اس حادثے کے بعد کے ریسکیو آپریشن پر جو آپ نے بات کی وہ بھی بہت اچھی لگی لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ آئے روز بم دھماکوں نے انتظامیہ اور عوام کو بدحواس کر رکھا ہے۔ ہماری قوم پر تو آزمائش کی گھڑی آن پہنچی۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ ابھی ایک اور سیلاب کا طوفان۔ شاید ہمارے ملک کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔
تھوڑا سا سچ اور بول ديتے کہ اس بھٹکے ہوئے طيارے کو خود ہی مارا ہے۔ بھلا اس کا بليک باکس کيسے ملے گا؟ جس بيچارے نے کہا تھا کہ يہ مل گيا ہے اسے نہيں معلوم تھا کہ اس کے باس کا گھر بچايا گيا ہے۔ جس کے ليے 152 گھروں کی راکھ کيا۔ جنگلی افريقی سر اکٹھے کيا کرتے تھے اور ہم بليک باکس۔
یہیں کہیں ایک سٹال بی بی سی کی طرف سے بھی لگایا گیا تھا جو ذیشان ظفر کی سربراہی میں چلا
الله تعالیٰ تمام مرحومین کی مغفرت فرماۓ. کیا کالم لکھا ہے! قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی کی یاد آگئی!
وسعت صاحب آپ واحد رائیٹر ہیں جن کی تحریر بی بی سی پر باقاعدہ پڑھتا ہوں، معذرت کے ساتھ بقیہ تجزیات عموماً روح سے عاری ہوتے ہیں، ان میں سے ایک مخصوص سوچ کی بو آتی ہے اور صرف ایک مخصوص اینگل کے نظریات تھوپنے کی کوشش میں وہ مزید بدتر شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس بلاگ کو پڑھ کر آپ کی علم دوستی اور خبروں کو پرکھنے کی سوجھ بوجھ پر مزید اعتبار آگیا۔ اللہ تمام لواحقین کی مغفرت فرمائے اور ان کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اور شاید حکمرانوں کے لیے تو کچھ کہنا فضول ہوگا۔ یہ کھانے پینے کے لیے آئے ہیں۔ جب وقت ختم ہوجائے گا تو سامان سمیٹ کر مداری کی طرح غائب ہوجائیں گے۔
جناب، يہ ’مسخرے‘ کسي نے درآمد تو نہيں کیے۔ نظام ہي کی پيداوار ہيں۔ اب انہيں معياد پوري ہونے تک تو بھگتنا ہي ہوگا۔ اس کے بعد جو ووٹر حضرات کی خوشی۔ انتخابی عمل جاري و ساري رہتا تو ان ’مسخروں‘ کے امکانات صفر تھے۔ قوم کا ذوق نکھر چکا ہوتا۔
اللہ تعالٰی تمام مسافروں اور عملے کے ارکان کو شہادت کا درجہ عطا فرمائے” آمین”
شايد ايسے سانحات اس وقت تک پيش آتے رہيں گے، جبتک ہم مہزب انسانوں کی طرح برتاؤ کرنا نہيں سيکھ ليتے-
وسعت اللہ خان صاحب ! اس حادثے ميں انسانی جانوں کے ضياع پر جتنا بھی دکھ کيا جائے کم ہے کہ يوں اچانک ہنستے بستے گھروں ميں صف ماتم بچھ گئی ہے اور حادثے کا شکار ہونے والوں کے لواحقين، عزيز و اقرباء اپنے پياروں کی جدائی پر جس قرب سے دوچار ہوں گے اس کا اندازہ ہر کوئی کرسکتا ہے ليکن تقدير پر کسی کا زور نہيں۔ اللہ مرحومين کو اپنے جوار رحمت ميں جگہ دے اور لواحقين کو صبر جميل عطا کرے۔
اس حادثے نے بھی ثابت کيا کہ ہم بے تدبير، غيرمنظم اور جذباتی لوگ ہيں۔ باتيں زيادہ اور کام کم کرتے ہيں۔ اسی حوالے سے کئی سوالات ہيں جو جواب طلب ہيں مثلاّ آگ بجھانے کی کوشش کيوں نہيں کی گئی؟ لوگوں کی زندگياں بچانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار کيوں نہيں لائے گئے؟ لاشوں کی تلاش کے لیے رات کو آپريشن بند کرنے کے بجائے لائٹوں کا انتظام کيوں نہيں کيا گيا؟ وغيرہ وغيرہ ليکن کسے وکيل کريں کس سے منصفی چاہيں!
‘جب شہر سے چلے تو زمانے کو غم ہوا
تھے شہر میں تو منہ نہ لگاتا تھا کوئی بھی‘
آہ اور واہ دونوں اکٹھے نکلے ہیں
اس تحریر کو پڑھنے کے بعد
یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں ہر حادثہ ایک میلے کی مانند ہوتا ہے کیونکہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں قومی سانحات سے نمٹنے کی نہ تو باقاعدہ تربیت ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ۔ لیکن جس انداز میں اتنے بڑے سانحے کا تمسخر اڑایا گیا ہے وہ انداز درست نہیں۔
کيا بن گيا ہے اس ملک کا اور کيا بنے گا؟ جس جگہ نيم حکيم ہوں، نيم صحافی ہوں، نيم فلاسفی ہوں، نيم اساتذہ ہوں، نيم سائنسدان ہوں اور لٹيرے رہنما ہوں۔ اس ملک کے مستقبل کے بارے ميں پيشگوئی کرنا.......جارج اورول کے اينيمل فارم اور پاکستان ميں مشابہت.........
150 لوگوں کی ہلاکت کو مہذب دنیا میں کوئی میلے کا نام نہیں دے سکتا۔ اس کالم کو پڑھ کر جن کا کوئی عزیز فوت ہوا ان کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی؟ کالم نگار کا ضمیر اتنا مرا ہوا ہے کہ اب اسے نوحے اور مذاق کا فرق بھی بھول گیا ہے۔ میں اور میرے جیسے کئی اور لوگ اس تحریر پر ماتم ہی کر سکتے ہیں۔
کائرہ صاب! بلیک باکس تو مل گیا لیکن اب ڈی جی سول ایوی ایشن جنید آمین صاحب کا کہنا ہے کہ اس بلیک باکس کو کھولنے کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے گا اور اس کی تفتیش میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ اب آپ کیا کہیں گے؟
وسعت اللہ خان صاحب! آپ کے بلاگ میں وفاقی بیت المال کی جانب سے ائر کریش میں ہلک ہونے والے افراد کے ورثاء و لواحقین کو کھانا کھلانے کے عظیم کارنامے کا ذکر نہیں دیکھنے کو ملا، جو کہ ان کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ متعلقہ حکام نے تو الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا کی بھی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔ اور ملک کے مختلف روزناموں میں ان مصیبت زدوں کی تصاویر کھانا کھاتے ہوئے چھاپی گئی تھیں۔
آخر اس ملک میں ہو کیا رہا ہے کہ مصیبت زدہ لوگوں کا اس طرح مزاق اڑیاجاتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ اس واقعے کی انکوائری کا ٹاسک ان بدحواسوں کو سونپ دے۔
افسانوی زبان کے تڑکے نے دکھی دلوں کے زخموں پر نمک تو نہیں چھڑکا، لیکن سچ کا مکروہ چہرہ ضرور دکھا دیا ہے، کاش آپ تنقید کے اس مقدس فرض سے آگے بڑھ کر کوئی نسخہ شفا بھی لکھ دیتے۔ یہ بھی لکھ دیتے کہ اب وقت آگیا ہے اس ملک کو ٹھیکے پر دے دیا جائے، وسعت صاحب کے فکری دستر خوان پر سجے انگریزی کھانوں کے کنٹریکٹرز کو نہ سہی، چین کو سہی، ترکی کو سہی، ملائشیا کو سہی، خدا کا واسطہ ہے کچھ کرو، یہ ملک ڈوب رہا ہے۔
اکثر لوگ ائر بلو کے ’بچ جانے والے پانچ مسافروں‘ کی افواہ کے لیے میڈیا کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ خبر وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے ٹی وی چینلز کو دی اور وہ ہسپتال بھی بتا دیا جہاں ’ان زخمیوں‘ کو طبی امداد کے لیے لے جایا گیا۔ صحافیوں کے علاوہ پریشان حال رشتہ داروں کی بھی دوڑیں لگا دیں۔ میڈیا تو شاید عادی ہے لیکن رشتہ داروں کے ساتھ شاید اس سے بڑا مذاق نہیں ہوسکتا تھا۔
آپ نے بہت عمدہ تبصرہ کیا ہے سب لوگوں کی بد حواسی پر۔ ہر ملک میں ایک اتھارٹی ہوتی ہے جو کسی بھی حادثے کے بعد معلومات فراہم کرتی ہے۔ مگر ہمارے ملک میں کسی واقعے کے بعد ہر وزیر ایک اتھارٹی اور ہر اینکر اُس شعبے کا ایکسپرٹ بن جاتا ہے۔
ایک روتے ہوئے آدمی سے پوچھنا کے وہ کیا محسوس کر رہا ہے۔۔۔
ایسے وقت میں میڈیا لوگوں کے جذبات بیچ کے پیسے کماتا ہے۔
دراصل بات يہ ہے کہ سیاسی لوگ جب حکمرانی ميں آتے ہيں تو جلسے کرتے کرتے ان کے اندر ايک عادت پکی ہو جاتی ہے۔ جہاں چار لوگ جمع ہو جاتے ہيں تو ان کے اندر کا ليڈر بيدار ہو جاتا ہے اور وہ فوراً خطاب کرنے پر آمادہ ہو کر سياسی جلسے کے خطاب کی طرح جوش خطابت ميں کچھ چونکا دينے والی گوہر افشانياں کر جاتے ہيں۔ کائرہ صاحب کے ساتھ بھی ايسا ہی کچھ لگتا ہے۔ وہ يہ بھول گئے کہ لواحقين وہاں اپنے لوگوں کی معلومات کے لیے جمع ہوئے تھے۔ دراصل ان لوگوں کو ٹريننگ کی ضرورت ہے۔
اتنا گہرا سچ۔
دل پہلے ہی افسردہ ہے، آپ کی تحرير پڑھ کر دھاڑيں مار کے رونے کا دل کرتا ہے، اپنی بے بسی اور حکومت کی بے حسی پر۔
محترم آپ کا طنز بے جا ہے اور دکھوں کو کم نہیں کرتا بلکہ بڑھاتا ہے۔ اس موقع پر آپ اپنی خالی بوتلوں کے کریٹ جوڑ کر اس پر طعن و تشنیع کے تیر برساتے نظر آ رہے ہیں۔ موقع کی مناسبت اور تحریر میں ایک سنجیدہ طنز کا آپ کے ہاں مجھے ہمیشہ فقدان نظر آیا ہے۔ اکثر آپ کا طنز بغض کی حد کو چھوتا نظر آتا ہے۔ اگر برطانیہ میں یہ حادثہ ہوتا تو کیا آپ کا طرز تحریر یہی ہوتا۔ بھائی رحمان ملک سے میں نفرت کرتا ہوں اور قمر الزمان کائرہ سے بھی بلکہ تقریباً دنیا کے ہر سیاستدان سے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مسئلے میں ہم انھیں قصوروار ٹھہرائیں۔ بی بی سی اردو کو پاکستان میں خصوصی طور پر صرف کیڑے نظر آتے ہیں۔ تنخواہ جو پاؤنڈز میں ملتی ہے۔ کل تنخواہ اسلام آباد سے آنی شروع ہو آپ کی تو آ کا لہجہ بدل جائے گا۔ خدا کا خوف کرو صاحبانو۔ مارگلہ کی پہاڑیوں میں جہاز رحمان ملک نے نہیں ٹکرایا اور نہ قمرالزمان کائرہ نے۔
اچھی تحریر ہے۔ رحمان ملک اور قمر زمان دونوں واقعی مسخرے ہیں۔ ان کو ملک کی فکر ہی کہاں ہے۔ ان کو صرف ایک چیز کا شوق ہے، بیان بازی۔
یہ حادثہ یقیناً اسلام آباد کی تاریخ کا بدترین حادثہ تھا۔ کتنے بدنصیب لوگ اس حادثے کے بعد یتیم اور بیوہ ہو گئے۔ حکومت کے 5 ، 5 لاکھ روپے کا مرہم بھی ان کے دکھوں کا مداوہ نہیں کر سکتا۔ خدا ان تمام لوگوں کو جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین۔
یہاں جاپان میں بھی اس میلے کے سٹال لگے ہیں۔ خبروں کی سائٹوں پر فوٹو لگوانے کے شوقین لوگ افسوس کے بیانات لگوا رہے ہیں۔ اب سیلاب کے میلے کی بھی دھوم اٹھے گی اور چندے اکٹھے ہوں گے۔ اللہ جس کو دیتا ہو بے حساب دیتا ہے، اس لیے چندہ بھی بے حساب ہوتا ہے۔
جناب وسعت اللہ صاحب
اسلام عليکم
آپ کا تبصرہ بہت جامع اور پر مغز ہے۔ اسے سطحی نگاہ سے ديکھيں تو اس سانحہ پر افرا تفريح اور ايک ہڑ بونگ کی ايسی منظر کشی ہے جيسے نيلام ميں لوگ بولياں لگا کر مال خريدنے ميں کوشاں ہوں، پھر مال بک ہو گيا تو نيلام گھر سے چل ديے۔ بکا ہوا مال بھی وہيں چھوڑ ديا کہ بعد ميں آ کر اٹھا ہی ليں گے۔ اب نيلام گھر خالی ہوگيا صرف نيلام گھر کا عملہ وہاں رہ کر اپنا کام کرتا رہ گيا۔ ليکن اگر گہرائی سے اس تجزيہ کا جائزہ ليں تو ايک گہری سازش کے استعارے اس تحرير ميں پنہاں دکھائی ديتے ہيں جس ميں آموں کی پيٹياں ماضی کے المناک سانحے کے زخم ہرا کرنےميں معاونت کرتے دکھائی ديتے ہيں۔
غرض ايک بے صبر اور جلد باز جذباتی قوم کو بہت کچھ سمجھانے کو موجود ہے اگر وہ سمجھنا چاہيں۔ غم و اندوح کی اس گھڑی ميں متاثرہ لوگوں کی آہيں اور سسکياں رہ جانے والی بات اصل حقيقت ہے جو ان کے پياروں کے سينوں سے نکل کر عرش تک پہنچتی ہيں۔
باقی سب فريب ہے۔
بہت عمدہ تبصرہ کیا ہے آپ نے سب لوگوں کی بد حواسی پر۔
ہر ملک میں ایک اتھارٹی ہوتی ہے جو کسی بھی حادثے کے بعد معلومات فراہم کرتی ہے۔ مگر ہمارے ملک میں کسی واقعے کے بعد ہر وزیر ایک اتھارٹی اور ہر اینکر اُس شعبے کا ایکسپرٹ بن جاتا ہے۔
ایک روتے ہوے آدمی سے پوچھنا کے وہ کیا محسوس کر رہا ہے۔۔۔
ایسے وقت میں میڈیا لوگوں کے جزبات بیچ کے پیسے کماتا ہے۔
مين کس کے ہاتھ پے اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوے ہيں دستانے
وسعت اللہ صاحب آب بتایے کیا ہونا چاہیے تھا؟ میڈیا والوں کی تو جو ذمہ داری تھی، چاہے مقصد کوئی بھی ہو، انہوں نے خبر عوام تک پہنچا دی۔ پتا تو سب کو چل گیا کہ کون کون چلا گیا دنیا سے۔ آپ کے اس کالم کا مقصد میڈیا اور گورنمنٹ پر تنقید ہی تھا تو ساتھ کوئی حل بھی تو بتاتے کہ ایسا نہیں ایسا ہونا چاہیے۔ خالی تنقید تو ہم روز سنتے ہی ہیں۔
وسعت بھائی آپ کے بلاگز سے بہت کچھ سيکھا ہے۔ ميں جانتی ہوں کہ آج کا بلاگ بھی کچھ ايسے ہی دکھی دل سے قلم بند ہوا ہے جبھی تو سب کو ہی آپ نے ايک الگ انداز ميں اپنے غصے کی زد ميں گھسيٹ ليا ہے۔ ہمارے لوگ ہر معاملے میں اپنی اپنی دکان اور دکانداری چمکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے کہاں جانے ديتے ہيں۔ اپنے پياروں سے ہميشہ کے لیے بچھڑ جانے والوں کے دکھ پر ابھی اور کتنی کہانياں سامنے آتی رہيں گی ليکِن اسے کيا کہيں گے کہ شايد اِن بڑے لوگوں کے دِلوں ميں ايسی کوئی درد مندی ہوتی ہی نہيں کہ اپنے دِلوں کے درد کا درماں کرنے کے لِیے تو يہ ملک ميں رہنا بھی پسند نہيں کرتے۔ صِرف اپنا درد ہی اپنا ہے اِن کے نزديک۔
ايسے ميں کسی بھی قسم کی توقع فضول ہے کہ
’احساس مر نا جائے تو انسان کے لیے
کافی ہے ايک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی‘
اور ہميں تو نا جانے اور کِتنی ٹھوکريں اور لگنی باقی ہيں۔ بس ايک بات سوچ کر تکليف کی شدت کم نہيں ہوتی کہ يہ سب کچھ صرف عام لوگوں کا ہی نصيب کيوں، آخِر کيوں؟؟؟
وسعت اللہ صاحب! آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ اس دفعہ تو آپ نے ایکٹروں کے نام تک لکھ ڈالے ہیں۔ حالانکہ آپ کو بھی پتہ ہے پاکستان میں کچھ تبدیل ہونے والا نہیں۔ لیکن آپ کالم نگاروں کو بھول گئے ہیں۔ وہ بھی اپنی اپنی دکانیں سجائیں گے۔ ویسے لوگ تھوڑے تھوڑے کر کے مر تو رہے ہیں لیکن ابھی بھی صحیح مزہ نہیں آ رہا۔ کیا ہی اچھا ہو سارے مر جائیں اور پیچھے صرف طالبان، سیاستدان اور میڈیا بچے۔
جناب نے بھي کس معصوميت سے اپنا مال فروخت کر ليا۔
محترم وسعت اللہ خان صاحب! آپ نے اپنے بلاگ میں سارے صورتحال کی اچھی تصویر کشی کی ہے۔ اور حکومت کے ان غیر سنجیدہ عہدیداروں سے پاکستان کا امیج نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک بھی گرتا جا رہا ہے کیونکہ یہ ذمہ داران اسٹیٹمنٹ دے دیتے ہیں اور پھر مکر جاتے ہیں۔ آپ کے بلاگ میں وزارت بیت المال کی خدمت میں کچھ بھی تحریر نہیں کیا گیا تھا۔ کہ انہوں نے جو ہلاک ہونے والوں کے ورثاء کو کھانا کھلاتے ہوئے اخباروں میں تصاویر کنچھوائی ہیں۔ آخر میں میڈیا اینکرز کے بارے میں جو آپ نے تحریر کیا تو اس سے میں متفق نہیں ہوں کیونکہ آپ خود اس ملک کے نامی گرامی صحافی ہیں اور یہ آپ بھی خوب جانتے ہیں کہ میڈیا اینکرز / میڈیا مین
IS THE JACK OF ALL TRADES MASTER OF NONE.
اور اخبارات کے دفاتر میں سیاسی رہنماؤں نے فون کرکر کے رولا ڈال دیا کہ ان کے حادثے پر اظہار افسوس کی خبربھی شائع کی جائے ۔
طیارہ اسلام آباد کے ” ریڈ زون “ میں داخل ہو گیا تھا،کہیں طیارہ ”ریڈ زون“ کے حفاظتی انتظامات کا شکار تو نہیں ہوا؟
یہ ریڈ زون والی بات بھی مشکوک لگتی ہے۔ طیارے کو کہیں دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر خود گرایا نہ گیا ہو؟