ہاتھ میں پتھر، دل میں نفرت
جب نو سال کا لڑکا بھارتی سیکورٹی فورسز کے سامنے سینہ تان کر چلائے کہ 'آؤ مجھے گولی مار دو یا میرے ملک کو چھوڑدو' تو کیا حکومت یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے مبرا ہوسکتی ہے کہ 'بچے کو چند روپے دے کر اکسایا گیا ہے' اور بجائے اس کو بچانے کے اس پر گولی چلائے؟ ایسے ہی مناظر آج کل کشمیر کی اکثر گلیوں میں نظر آرہے ہیں۔
موجودہ شورش میں پھر بچے بوڑھے مرد و زن اپنے دلوں میں نفرت کا سمندر لے کر سڑکوں پر بھارت مخالف نعرے لگا رہے ہیں اور آزادی کی جدوجہد کو انجام تک جاری رکھنے کا عزم کررہے ہیں۔
بھارت نواز سیاست دان اس شورش کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ آزادی پسندوں نے نوعمر بچوں کو بہلا پھسلا کر خطرے میں ڈالا ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ موجودہ حالات ابتر معیشت اور بے روزگاری کی وجہ سے ہیں۔ کوئی زور دیتا ہے کہ مقامی حکومت کی نااہلی اور رشوت خوری کے خلاف لوگوں میں شدید غم وغصہ ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ان اسباب کا بھی موجودہ تحریک میں عمل دخل ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان احتجاجوں جلوسوں ہڑتالوں کی سب سے بڑی وجہ یہاں کی آبادی میں بھارت مخالف جذبہ ہے جو نہ جانے اتنا گہرا کیوں ہوگیا ہے۔ اس پر یہاں کی بزرگ نسل بھی خود اچنبھے میں ہے جو سن سنتالیس سے جذبہ آزادی سے سرشار رہی ہے۔
خیال تھا کہ سنتالیس کے بعد تیسری نسل سے وابستہ بچوں میں جو زیادہ تر پرائیوٹ سکولوں میں جدیدتعلیم حاصل کر رہے ہیں جنہیں اپنے کیریر کی فکر دامن گیر ہے، جو انٹرنیٹ جنریشن کے نام سے جانی جاتی ہے اور بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم سے آراستہ ہونے کی وجہ سے بھارتیوں سے گھل مل رہے ہیں بھارت مخالف جذبہ اتنا گہرا نہیں ہوگا جتنا ان کے باپ دادا میں تھا۔
مگر حیرانی کی بات ہے کہ یہی نسل موجودہ تحریک کی بانی ہے اور آزادی کے حق میں موثر انداز سے اپنی آواز اٹھانے کی ایک باضابطہ مہم چلا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت کے ایوانوں میں اس سے کافی کھلبلی مچی ہوئی ہے اس لئے کہ ان کو 'دہشت گرد' بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔
حریت رہنماؤں سے لے بندوق برداروں تک سبھی نے ان کی تحریک میں شامل ہو کر انہیں کچھ مشورے بھی دینے کی سعی کی تھی لیکن ان کی آواز بند کردی گئی اور انہیں خاموش رہنے کی صلاح دی گئی ہے۔
یہ بچے گو کہ جدید تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں مگر ان میں بیشتر وہ بچے ہیں جنہوں نے اپنے عزیزوں اور پیاروں کو سیکورٹی فورسز کی گولیوں سے مرتے اور کٹتے دیکھا ہے۔
یہ وہی بچے ہیں جو گولیوں کی گھن گھرج کے دوران پیدا ہوئے، سیکورٹی فورسز کی جانب سے تلاشی کی کاروائیوں کے دوران اپنے والدین کی تذلیل کے دیکھ دیکھ کر پلے بڑھے ہیں۔
سکول کے راستے میں فوجیوں کے ڈنڈوں سے گزرے ہیں۔ ان کے اندر نفرت لاوے کی طرح ابلتی گئی اور یہ لاوا آج کل کشمیر کی گلیوں میں پھٹ کر باہر آرہا ہے۔
اسی لئے اپنے عزیزوں کو گولیوں سے مرتے دیکھتے وقت ان کے چہروں پر جو خوف اور دہشت چھائی تھی وہ اب نفرت کا سمندر بن گئی ہے اور نفرت کا یہ طوفان موجودہ تحریک کو کون سا موڑ دے گا اس کا اندازہ لگانا ان حالات میں انتہائی مشکل ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
موجودہ حالات کی اصل وجہ ابتر معشيت اور بے روزگاری ہی ہے۔دنيا ميں جہاں کہيں بھی معاشی حالات ابتر ہيں لوگ افراتفری اور بدنظمی کا شکار ہيں اور مصيبت زدہ لوگوں کے بڑے افراد بچوں کو دلاسے کے طور پر اس کی وجہ بغير منصوبہ بندی کے آبادی کا بڑھنا کبھی نہيں بتائيں گے کيونکہ وہ خود اس کے ذمہ دار ہوتے ہيں بلکہ ان کو نظريات اور آزادی کے حصول کی لڑائی ميں ملوث کرکے خود کو بری کرليتے ہيں۔ اگر کشمير آزاد بھی ہوجائے تو کيا وہاں کے رہنے والے ايک نظريہ لے کر ايسی گورنمنٹ بناسکتے ہيں جو کہ ترقی يافتہ ملکوں کی طرح ہو؟بلکہ ايسی ہی حکومت بنے گی جيسی انڈيا اور پاکستان ميں ہے اور يہ جو لڑ مر رہے ہيں ان کے وہی حالات رہيں گے جو اب ہيں۔ہاں آپ کی يہ بات درست ہے کہ بچوں ميں نفرت بڑھ رہی ہے اور بھارتی حکومت اپنی ساکھ کھو رہی ہے ليکن يہ ايک ايسا مسلہ ہے جس ميں پاکستان کے علاوہ باقی دنيا کو کوئی دلچسپی نہيں اور يہ حل ہوتا دکھائی نہيں ديتا۔فوج کی موجودگی کی بنيادی وجہ پاکستانی مذہبی تنظيموں کی مداخلت ہے اور اگر يہ تنظيميں وہاں سے چلی جائيں تو بچوں کو وہاں فوجی بھی نظر نہ آئيں گے اور يہ تنظيميں بچوں کے نوخيز ذہنوں کی وجہ سے ہی چلتيں ہيں ورنہ بڑے ان کے نرغے ميں آنے والے نہيں۔
مہجور صاحب! یقیناََ یہ بات حیران کن ہے کہ جذبہ حریت کشمیر جوانوں میں اگر اپن ابائو اجداد سے زیادہ نہیں تو کم بھی ہرگز نہیں ہے۔ ان جوانوں کے چہروں پر جو خوف اور دہشت چھائی تھی وہ اب نفرت کا سمندر بن گئی ہے اور میرے خیال میں اس کے نتائج ہر گز نام نہاد جمہوریت کے علم بردار ملک کے حق میں کسی طور نہیں نکلیں گے۔ کیونکہ دنیا یہ مان چکی ہے کہ جہاں بھی جذبہ حریت اس اندازہ میں اٹھا ہے اس کا نتیجہ حریت پسندوں کے حق میں نکلا ہے۔ اس کے علاوہ فوجی طاقت اس جذبہ کو مزید تقویت دینے کیلئے کافی ہے۔ اللہ ان معصوم کشمیریوں کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
آگ گزشتہ نصف صدی سے کشمير ميں لگی ہوئی ہے يہ اسی کی راکھ ہے اب اس راکھ پر پھول اگنے سے تو رہے اس سے بارود ہی بن سکتا ہے۔ يہ بارود ان پر بھی گرے گا جنہوں نے اس آگ کو اپنے مقاصد کيلئے استعمال کيا اور ان پر بھی برسے گا جو يہ سمجھ رہے تھے کہ اس آگ سے سب ختم ہوجائے گا۔ کشميريوں کی يہ نئی نسل جسے آپ کسی بھی نام سے پکاريں اسی ميں سے بانيان نئے کشمير ہونگے۔
کشمیریوں کا معاملہ معیشت اور بے روزگاری ہرگز نہیں ہے۔ اگر یہ مسائل ہوتے تو نوجوانوں کے جلوس پاکستانی پرچم اٹھائے سری نگر کی گلیوں سے برآمد نہ ہوتے بلکہ وہ نوکریاں مانگتے۔ بلاشبہ تحریک آزادی کشمیر آج اپنے عروج پر ہے۔ پاکستانی حکومت اس کی سرپرستی تو درکنار آج کل اس کی حمایت سے بھی قاصر ہے۔ مگر پاکستانی قوم اگرچہ داخلی انتشار کاشکار ہے۔ مگر اس کا دل آج بھی سرینگر کی کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔
بہت اچھا بلاگ ہے۔ بہت جلد بھارت اور پاکستان دونوں کو کشمیر سے نکلنا ہوگا۔ صرف آذاد کشمیر ہی کشمیر میں امن کا ضامن ہوسکتا ہے۔
حقائق تلخ ہوتے ہيں اگر مہذب دنيا اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے مطابق يہاں استصواب رائے کروا ديتی تو کشميری اور انڈوپاک تناؤ بھی نہ ہوتا اور اتنی بڑی تعداد بھی ہلاک نہ ہوتی۔ دراصل عالمی طاقتيں اپنے مفادات کے لئے دونوں ممالک سے تعلقات رکھ کر انہيں اپنا دست نگر بھی رکھنا چاہتی تھيں اور اب بھی ہيں۔ ليکن ان معصوم کشميريوں کے منظم قتل عام پر ان ممالک کے کانوں ميں جوں بھی نہيں رينگتی- يہ احتجاج اور مظاہرے کس بات کے غماز ہيں۔ جہاں تک پاکستانی مداخلت ہے تو جناب اس وقت تو خود انڈيا تسليم کرتا ہے کہ پاکستان کا ہاتھ نہيں ہے۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو مسلمان ہونے کے ناطے قدرتی ان کا جھکاؤ پاکستان ہی کی طرف ہے اور رہے گا۔ يہ احتجاج مہذب دنيا سے مطالبہ کرتا نظر آتا ہے کہ انہيں انڈيا کے چنگل سے رہائی دلوائی جائے۔ انڈيا مسئلہ کشمير اپنے تخليق کردہ منصوبے کے تحت اس کا بزور طاقت، مکر، چالبازی اور فريب سےحل کرنا چاہتا ہے- لیکن ساٹھ سال سے زائد گزرنے کے باوجود کشميری احتجاج ميں شدت اس بات کی نشاندہی ہے کہ ان کو انڈيا کی بالا دستی قبول نہيں۔
'وقت سے پہلے بچوں نے چہروں پہ بڑھاپا اوڑھ لیا‘
تتلی بن کر اُڑنے والے سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں
فارغ کیسے دَور میں یہ تاریخ ہمیں لے آئی ہے
‘اپنے دُکھ بھی سہتے ہیں تاریخ کے دُکھ بھی سہتے ہیں'
یہ بات سولہ آنے درست ہے کہ بنیادی طور پر پیار ہی انسان کی فطرت ہے اور یہی انسان کا سچا جذبہ ہے جو کہ پیدا ہوتے ہی وہ لے کر آتا ہے۔ بچہ لوگوں سے، اپنے ارد گرد کے سیاسی و عسکری و معاشی و سماجی ماحول سے، خوف اور محبت سے محرومی کے باعث، ظلم کرنے یا ظلم کا مقابلہ کرنے کے ذریعے اور تحقیر و تذلیل کا جواب دینے کے لیے نفرت دنیا سے حاصل کرتا ہے۔ گویا نفرت ایک کشید کرنے والی چیز ہے۔ لہذا اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں تریسٹھ سال کاعرصہ گزر جانے پر نفرت کا ایک کوہ ہمالیہ کھڑا ہو جانا چاہیئے تھا جو کہ فی الحال کھڑا ہوتا نظر نہیں آتا سوائے ایک چھوٹی سی پہاڑی کے اور وہ بھی جو کہ خود تراشی گئی زیادہ معلوم ہوتی ہے بہ نسبت خودکارانہ طریقے سے بنی ہو۔ نفرت کا کوہ ہمالیہ کھڑا نہ ہونے کی وجوہات میں سے ایک چیدہ وجہ صرف یہی ہے کہ کشمیری نسل صرف بھارتی فوج کے ہی نہیں بلکہ ‘جہادیوں‘ کے ظلم و ستم کا بلاواسطہ یا بلواسطہ شکار بھی ہوتی آ رہی ہے لہذا بچے کوئی فائنل اور ٹھوس فیصلہ نہیں کر پا رہے اور اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ وہ نفرت کس سے کریں؟ کس کو کشمیر کا دشمن اور کس کو دوست سمجھیں؟ کس کو غاصب اور کس کو محافظ کہیں؟ بھارتی فوج یا مسلح ‘جہادی‘ کشمیر پر اپنا قبضہ چاہتے ہیں؟ حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟ اگر بھارتی فوج اور ‘جہادی و درانداز‘ دونوں ہی حق پر نہیں ہیں تو پھر دو سانڈوں کے درمیان کشمیر جنت نظیر کو کیوں خون سے نہایا جا رہا ہے؟ اور کیا ایسا کرنا قرین انصاف ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی؟۔۔۔۔۔۔ جیسے سوالات نے کشمیری بچوں میں ‘نفرت‘ کو ‘نقطہ ارتکاز‘ نہیں بننے دیا اور یہی وجہ ہے کہ فی الحال نفرت کا ‘لاوا‘ پھوٹ پڑنے کا چانس نہیں ہے کہ بے یقینی کی سی صورت میں کوئی بھی کام یا جذبہ بھرپور طریقے سے اپنا کام نہیں دکھا سکتا۔ کشمیری بچوں کی ‘نفرت‘ ابھی سورج کی روشنی کی مانند ہے جو جب چمکتا ہے تو دن چڑھ آتا ہے، دھوپ پھیلتی ہے، تپش و حدت و گرمی ہوتی ہے لیکن یہ تپش و حدت اور پھیلی ہوئی گرمی جلاتی نہیں ہے، آگ نہیں لگاتی۔ لیکن جب یہ روشنی، یہ دھوپ ایک نقطے پر مرکوز ہو جاتی ہے تو آگ لگ جاتی ہے، کاغذ جًل اٹھتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ سارا راز ایک نقطے پر مرکوز ہونے میں ہوتا ہے۔ صحیح صورتحال کو سمجھنے کے لیے اپنی تمام تر حِسیں بروئے عمل لائے بغیر ان کی ‘نفرت‘ بھانبھڑ لگانے والی نہیں قرار دی جا سکتی۔
کشمیریوں کا جزبہ آزادی ہم جیسے ان پاکستانیوں کے لیے بھی خوشگوار حیرت کا باعث ہے جوامریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹس اوربلوچستان، خیبرپختونخوامیں بدامنی کی صورتحال کوسامنے رکھتے ہوئے ملک کے حصے بخرے ہونے کے خدشات کا شکارہیں۔۔۔۔یقینا مقبوضہ کشمیر میں جدوجہدآزادی اس بات کی غمازہے کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے ہی بناہے۔
اس موضوع پر یہ زبردست مضمون ہے۔ یہ ہی سچ ہے۔ ایسا لکھنے کے لیے شکریہ
بھارت سات عشروں تک کشمیریوں کو تسخیر نہیں کر سکا، اب بھی ثابت ہے کہ بھارت کشمیریوں اور ان کے جذبہ آزادی کو فتح نہیں کر سکتا۔ اب اگر جنگ و جدل ہوتی ہے تو یہ بھارت کی ہی چوائس ہوگی۔
کشمیر میں ہندوستان گذشتہ چھ دہائیوں سے فوجی طاقت کے بل بوتے پر قابض ہے۔ اس نے ہر حربہ آزمایہ۔ لیکن رزلٹ صفر۔ وہ کشمیریوں کے دل سے آزادی کی شمع بجھا نہ سکا۔ آخر کار ہندوستان اور پاکستان کو اپنی اپنی افواج کو کشمیر سے نکالنا پڑے گا۔ مسئلے کا حل بھی یہی ہے۔ کشمیر کشمیریوں کا ہے نہ انڈیا کا نہ پاکستان کا۔
شروع سے ہی حریت پسندی مسلمانوں کی تاریخ رہی ہے۔ آذادی کشمریوں کا مقدر ہے۔
اگر پاكستان دل سے كرے تو یہ مسئلہ دس روز ميں حل ہو سكتا ہے۔
کشمیر کے موجودہ دگرگوں حالات اور بھارتی ریاستی دہشتگردی یہ تقاضا کرتی ہے کہ عالمی برادری بھارت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بیگناہ شہریوں کا قتل عام بند کرائے۔ لیکن عالمی طاقتوں اور نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کی بے حسی پہ رونا آ رہا ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ کشمیریوں کا حق آزادی ان کو دے ورنہ کشمیر کی گھاٹی میں لگی آگ کہیں پورے خطےکو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ کشمیری آزادی سے کم کسی قیمت پر راضی ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اللہ ان کی مدد و نصرت فرمائے۔ آمین۔
’آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و اسیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر‘
انیس سو نوے کی دہائی میں انڈین حکومت کہتی تھی کہ سارا قصور پاکستان کا ہے جو سرحد پار سے شدت پسندوں کارروائی کر رہے ہیں مگر اب ساری دنیا کو بخوبی پتا ہے کے بیچارے پاکستانی راہنماؤں کو گھومنے پھرنے اور پیسے بنانے سے فرصت نہیں تو بھلا کشمیر کس بلا کا نام ہے۔ اب کشمیریوں کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ آزادی سے رہنا چاہیں گے یا کسی گولی کا انتظار کریں گے کہ کب سینے میں پیوست ہوجائیگی۔
نفرت کی وجہ اس کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے کہ کشمیر میں بغیر روک ٹوک کے قتل عام جاری ہے۔ فوج کو لامحدود ذرائع حاصل ہیں، کسی کو بھی ثبوت یا بغیر ثبوت صرف شک کی بنیاد پر گرفتار کیا جا سکتا ہے اور بعدازاں تشدد کر کے ابدی نیند بھی سلایا جا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے، شاید ہندو کی مسلمان سے نفرت کی وجہ سے، تو جب آپ نفرت بوئیں گے تو وہی کاٹیں گے نا۔