’ابے چل ناں‘
ہر باپ کی طرح میرے والد نے بھی جو چند نصیحتیں کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ’ایک ہاں سو دکھ، ایک ناں سو سکھ۔۔۔‘
اس کہاوت کا جیسا چابکدست اور سائنسی استعمال مجھے اپنے سماج میں دیکھنے کو ملا شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔
ہر باپ کی طرح میرے والد نے بھی جو چند نصیحتیں کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ’ایک ہاں سو دکھ، ایک ناں سو سکھ۔۔۔‘
اس کہاوت کا جیسا چابکدست اور سائنسی استعمال مجھے اپنے سماج میں دیکھنے کو ملا شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔
دنیا میں اگر مذہبی انتہا پسندی ہے تو اسکی تمام ترذمہ داری مردوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی معاشرے کی عورت کو ابھی تک مکمل فیصلہ سازی کا موقعہ نہیں دیا گیا ہے۔
شاباس مولوی حضرات۔ آپ کی کوششوں سے سلمان رشدی کی بدنام کتاب ’دی سیٹینِک ورسز‘ میں پھر دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ بیس سال قبل چھپنے والی اس کتاب کو شاید کم ہی لوگوں نے پڑھا تھا لیکن اب بہت سارے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کتاب میں آخر ہے کیا۔
سندھ کے وزیر اعلی ارباب غلام رحیم مصنف و ناول نگار سلمان رشدی کو ملکہِ برطانیہ کی طرف سے دیئے گئے ’نائیٹ ہوڈ‘ یا سر کے خطاب کو احتجاج کا بہانہ بنا کر کبھی واپس نہ کرتے اگر بینظیر بھٹو کے دادا سر شاہنواز نہیں کہلاتے ہوتے۔
پہلی خبر۔
’بھارت کی شمالی ریاست بہار کے شہر بھاگل پور کے گاؤں چترواہا میں سترہ جون کو تیس کے لگ بھگ ہندوؤں نے گاؤں کے سرپنچ کے اکسانے پر ایک مسجد کے باہر سیرتِ رسول سے متعلق ایک اجتماع کے انتظامات کرنے والے دس مسلمانوں کو حملہ کر کے زخمی کر دیا۔ زخمیوں میں محلے کی دو خواتین بھی شامل ہیں۔ ہرے جھنڈے پھاڑ دئیے گئے اور روضہ رسول کی شبیہہ والے ماڈل کو بھی نقصان پہنچایا۔
جنرل ہیڈ کوارٹرز یا جی ایچ کیو جو پاکستان کے عوام کے محصولات اور ملکی بجٹ کا بھی بڑا حصہ کھا جاتا ہے، اسے اب کرنے کو صرف ایسے کام رہ گئے ہیں کہ ملک میں آزاد نظر آنے کی محض سر توڑ کوشش کرنے والے غیر سرکاری میڈیا پر اپنے گھوڑے چڑھا دے۔
بجٹ میں حکومت نے غریبوں کے لئے اشیائے ضرورت سستی کرنے کی مد میں تیرہ ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت ملک کی آدھی آبادی یا تو غریب ہے یا پھر بہت ہی غریب۔
وہ ایک وکھرے ٹائیپ کا فائر مین تھا۔
تعصب اور نفرت کی اگ بجھانے والا میرا دوست اے جی چانڈیو مرگیا۔ ایک صحافی لیکن انقلابی۔
بجٹ پیش ہونے والا ہے۔ حسبِ معمول غریبوں کے لیے آٹا، دال، مٹی کا تیل اور چینی سستی ہونے کی خبر سنائی جائے گی اور انشااللہ ایک ماہ بعد نہ تو بجٹ کسی کو یاد رہے گا اور نہ ہی قیمتوں میں کمی بیشی پر کسی کا دھیان ہوگا۔
آج کل پاکستان سے باہر احمد فراز کی ’مبینہ‘ تازہ نظم ’کور کمانڈر چور کمانڈر‘ کا بڑا شہرہ ہے۔ لیکن پاکستان کے اندر تانہ شاہی کا تازہ کلام یہ ہے کہ پاکستانی فوج کے کور کمانڈروں کے اجلاس میں فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف سے وفاداری کا اعلان کیا گیا ہے۔ گویا کہ کور کمانڈروں کی اپنے ’چیف صاحب‘ سے وفاداری پر کسی کو شک تھا!
طاہر مرزا صاحب کو مرحوم کہنا عجیب سا لگتا ہے۔ ہمیں وہ ہم سے زیادہ بڑے کبھی نہیں لگے تھے۔ ہم میں سے اکثر کی عمر جتنا شاید ان کا صحافت میں تجربہ تھا لیکن انہوں نے کبھی رعب نہ ڈالا، ہمیشہ اپنی عزت کروائی۔
ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے
اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔