بہروپئیے ڈکٹیٹر
لگتا ہے شہباز شریف کی والدہ بھی بچپن میں وہی کہہ کر ڈراتی ہوں گی جو پنجاب کے دیہاتوں میں کئی مائیں کہتی تھیں : بیٹا سو جاؤ نہیں تو پٹھان اٹھا کر لے جائے گا۔
لگتا ہے شہباز شریف کی والدہ بھی بچپن میں وہی کہہ کر ڈراتی ہوں گی جو پنجاب کے دیہاتوں میں کئی مائیں کہتی تھیں : بیٹا سو جاؤ نہیں تو پٹھان اٹھا کر لے جائے گا۔
صوبہ سرحد کے شورش زدہ علاقے سوات میں ایک سال سے زائد عرصے سے فوجی کارروائی جاری ہونے کے باوجود حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت کی اس علاقے میں رٹ صرف قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور کرنے کی حد تک رہ گئی ہے، اور دوسری طرف طالبان کے غیر قانونی ریڈیو ایف ایم چینل کا اثر و رسوخ سوات میں کہیں زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ تیسری طرف عام شہری اسی میں عافیت سمجھتا ہے کہ اس علاقے میں جس کی عملاً عملداری ہے اسی کی سنی جائے۔
براک اوباما کی حلف برداری کے بعدمیں "چاچا پالیٹیکس" کا تبصرہ سننے کی خواہش مند تھی مگر چاچا بات کرنے کے موڈ میں ہی نہیں۔
سیاست کا نقشہ بدل جائے یادنیا کا نقشہ بدل دیا جائے چاچا کی ان واقعات کے پیچھے اپنی دلیل ہوتی ہے چاہے میڈیا کے ذریعے آپ ان کی کتنی وضاحت پیش کریں
چاچا کے سکول آف جرنلزم کے سامنےبی بی سی ، سی این این ایک آنکھ نہیں بھاتے انہوں نے خبر کے معتبر ہونے کے سلسلےمیں اپنے اصول وضح کئے ہیں۔
شیدا: پہلے تو مجھے صرف شبہہ تھا۔ اب تو اسکی پہلی تقریر سن کر پکا پکا یقین ہوگیا ہے کہ وہ اندر سے مسلمان ہی ہے۔ اسی لیے وہ گوانتانامو بھی ختم کررہا ہے۔۔۔
مجی: مجھے پتہ ہے کہ تو کیوں کہہ رہا ہے۔ اصل میں تو بارک کے ساتھ حسین لگنے سے دھوکہ کھا گیا ہے۔ جیسے تو سکندرِ اعظم اور منارٹی فرنٹ کے شہباز بھٹی کو بہت دنوں تک مسلمان سمجھتا رہا۔۔۔
جب ستمبر انیس سو انتالیس میں ہٹلر کی نازی افواج نے پولینڈ کے دارلحکومت وارسا پر قبضہ کیا تو ایک کام یہ کیا گیا کہ وارسا کے لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ یہودیوں کو باقی شہر سے علیحدہ رکھنے کے لئے انکی آبادی کے گرد ایک بلند چاردیواری بنادی گئی۔
پاگل ہوگیا ہوں۔ جتنا سوچتا ہوں ذہن مزید گنجلک ہورہا ہے۔ غزہ پر بمباری کے اکیس دن ہوچلے ہیں، سینکڑوں بچے، عورتیں اور مرد ہلاک ہوچکے ہیں، ہزاروں زخمی ہوئے ہیں اور دسیوں ہزار لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔ درجنوں عمارتیں کھنڈر بن گئی ہیں۔
ڈیِجٹل دور نے انسان کی زندگی بالکل بدل ڈالی ہے جس کا احساس شائد تیسری دنیا کی مخلوق کو ابھی تک نہ ہواہو مگر مغربی دنیا میں جیسے سارا نظام بجلی کی مرہون منت ہے ویسے ہی روز مرہ کی زندگی اس ٹیکنالوجی کی مقروض بنتی جارہی ہے۔
رشتوں کے جوڑ توڑسے لے کر بنیادی مسائل کے حل تک کے سارے لوازات اب انٹرنیٹ کی دنیا ہی پوری کرتی ہے۔
تم ہمیں سوچنے دو
ہم مہذب لوگ ہیں، جب بھی کوئی مشکل پڑے
ساتھ مل کر بیٹھ کر سب فیصلے کرتے ہیں ہم
ہم مہذب لوگ ہیں اور جانتے ہیں
جلد بازی سے کیے سب فیصلوں کے
نتائج دیرپا ہوتے نہیں
تم ہمیں سوچنے دو
فلسطین کے نو فٹ لمبے جن نما انسان گولائتھ سے سب ڈرتے تھے۔ وہ بار بار آ کر پکارتا: 'ہے کوئی جو میرے سامنے آئے۔' اسرائیل کے لوگ پریشان تھے کہ کریں بھی تو کیا کریں، کس طرح اس جن کا مقابلہ کریں۔
کچھ بھی لکھنا خسیس لگتا ہے۔ معصوم روشن آنکھوں والے بچوں کی لاشیں، برسوں سے کوئی پیار بھرا خواب نہ دیکھ پانے والی آنکھوں والی عورتوں کی لاشیں اور نفرت اور غضب سے سلگتی ہوئی آنکھوں والے مردوں کی لاشیں۔ غزا میں پھیلی نہتے فلسطینیوں کی لاشیں۔ اب ان پے کوئی لکھے تو کیا لکھے؟ کچھ بھی لکھنا خسیس لگتا ہے۔
ایک خبر کے مطابق غزہ میں حماس کے ایک رہنما نے ٹیلی ویژن پر سے خطاب میں کہا کہ 'اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کے بچوں کو مار کر اپنے بچوں کا قتل جائز کر دیا ہے'۔
ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے
اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔