’آزادی جمہور کا آتا ہے زمانہ‘
پاکستان میں اب سب ناچ رہے ہیں۔ انتخابی فتح پر شادمان ہیں کہ ’آزادیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ۔‘
پاکستان میں اب سب ناچ رہے ہیں۔ انتخابی فتح پر شادمان ہیں کہ ’آزادیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ۔‘
مسلم لیگ قاف نامی ایک تنظیم کے صدر چوہدری پرویز الہی نے کہا ہے کہ انکی جماعت نے اٹھارہ فروری کو کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے چالیس فیصد لئے ہیں جو پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ ہیں لیکن ہر حلقے کی انفرادی سیاست کے سبب وہ اکثریت حاصل نہ کرسکے۔
’لگتا ہے فوج اور عوام آپس میں مل گئے ہیں‘ میرے ایک دوست نے انتخابات کے نتائج سنتے ہوئے کہا۔ واقعی سب سے بہتر انتقام ووٹ ہے، میں نے سوچا۔ بینظیر بھٹو کا قتل سندھ میں پی پی پی کو ووٹوں کی شکل میں ترجمہ ہوا ہے۔ جو اتھرو (آنسو) میاں نواز شریف نے ستائيس دسمبر کو بہائے تھے، پنجاب میں بھی لوگوں نے اسی کا جواب دیا ہے‘ ملک منظور کا کہنا تھا۔
’جمہوریت سے ریاست اہم ہے‘۔ پاکستان میں کل ہونیوالے انتخابات میں ممکنہ دھاندلیوں (جسے عمران خان نے ’تمام دھاندھلیوں کی ماں‘ قرار دیا ہے) کے خلاف احتجاج کیلیے سڑکوں پر نکلنے والوں کو دھمکی کے پس منظر میں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کا یہ بیان انیس سو اکہتر میں ٹکاخان کے بیان کی یاد دلاتا ہے: ’ہمیں مشرقی پاکستان کی زمیں چاہیے لوگ نہیں‘
جس طرح گوشت و ناخن، دن و رات، جھوٹ و سچ، عورت و مرد، سیاہ و سفید، علم و جہالت، فوج اور پاکستان کا چولی دامن کا ساتھ ہے اسی طرح ووٹ اور دھاندلی بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
اگلے ہفتے بہت سے ایسے لوگ یا تو خوف سے یا محض سُستی کے باعث ووٹ ڈالنے نہیں نکلیں گے۔
بینظیر بھٹو نےگزشتہ سولہ اکتوبر کو ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو ایک خط میں تین نام دیئے تھے جن سے بقول انکے انکی زندگی کو خطرہ لاحق تھا لیکن ظاہر ہے ان تینوں ناموں سے تفتیش کرنا اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ’ٹرمس آف ریفرنس‘ میں شامل نہیں تھا۔
جانے کیوں اس وقت مجھے خلیق ملتانی کے یہ اشعار یاد آ رہے ہیں۔
یہ کہانی ہے خوفناک لیکن ساتھ ہی انتہائی ہمت کی بھی۔ کہانی کچھ یوں ہے: ایک فوجی حکومت نے اقتدار سنبھالا اور جس نے بھی اس کی مخالفت کی اسے حکام پکڑ کر لے گئے۔ سات سال کے عرصے میں فوجی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے کوئی تیس ہزار لوگ غائب کر دیئے گئے۔
اب تو وہ ریٹائرڈ جنریل بھی جنہوں نے جنرل مشرف کو پریڈ کے میدان میں لیفٹ رائٹ سکھائی تھی یا میدانِ جنگ میں لڑنا (بقول فراز: تم ظفرمند تو خیر کیا لوٹتے)، وہ بھی کہنے لگے ہیں کہ وہ مستعفی ہوجائيں۔
ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے
اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔