یہ راکھ!
فلائٹ ای ڈی ٹو زیرو ٹو کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہر کریش ہونے والے طیارے کی قسمت ہے۔ ایک سو باون لاشیں چند کلومیٹر کے دائرے میں بکھر گئیں مگر ملبہ دور دور تک جا گرا۔
فلائٹ ای ڈی ٹو زیرو ٹو کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہر کریش ہونے والے طیارے کی قسمت ہے۔ ایک سو باون لاشیں چند کلومیٹر کے دائرے میں بکھر گئیں مگر ملبہ دور دور تک جا گرا۔
ملبہ ناصرف مارگلہ پر گرا بلکہ میڈیا بھی اس کی زد میں آیا ہے۔ اور کیوں نہ گرے، جب وہ آنکھیں بند کرکے اہم ترین ذمہ داران کے بیانات نشر اور شائع کر دیتے ہیں۔ اس کی کچھ قیمت تو میڈیا کو ادا کرنی ہوگی۔ ایئر بلو کے حادثے نے یہ ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ 'اعلی ترین حکومتی ذمہ داران' بھی میڈیا کے دباؤ میں بہہ سکتے ہیں۔ اور وہ بھی نیم پختہ اطلاعات کو چینلز کی 'بریکینک نیوز' کی بھوک مٹانے کے لیے فراہم کرسکتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں صحرائے چولستان کے کنارے آباد کسانوں سے ملیں اور ان کا حال پوچھیں تو لگتا ہے کہ بہالپور کا نواب خاندان کسانوں کو اجاڑنے میں صحرا کا ساتھی بن گیا ہے۔
میں نے تونسہ کے نیک مرد محمود نظامی سے پوچھا کہ ہم ایک خاص طرح کے ذہنی صندوق میں کیوں بند ہوگئے ہیں۔آس پاس کی دنیا کی طرح کیوں ترقی نہیں کر پا رہے؟
ہر امتحان کا نتیجہ کورس مکمل ہونے پر ملتا ہے اور اسلام میں تو تمام زندگی کی جز و سزا کا حساب آخرت میں ملتا ہے۔ شاید اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ شاہرات پنجاب نے ایک قدرے نیا تجربہ کیا ہے۔
ڈاکٹر جاوید لغاری وہ پاکستانی امریکی ہیں جو آجکل پاکستان میں 'جمہوریت سب سے بہتر انتقام' کا پھل چکھ رہے ہیں۔
میں مرگیا ہوں میرے آس پاس لوگوں کو اب بھی یقین نہیں کہ میں ایک لاش کی طرح بیچ راہ میں پڑا ہوں اور کوئی مجھے ٹھکانے بھی نہیں لگاتا حالانکہ میری بدبو پھیلنے لگی ہے۔ میں کئی فریقوں کے بیچ اس وقت بھی باعث تنازعہ ہوں ان میں سے کوئی یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ انہوں نے مجھے کس طرح اپنے اپنے منصوبوں سے ماردیا۔
یہ سوال سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ پاکستان میں جب بھی کوئی خود کش حملہ ہوتا ہے یا کسی مزار، مسجد یا بازار میں معصوم لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے یا پھر ملک کے سکیورٹی اداروں پر حملہ ہوتا ہے تو کئی لوگ یہ گھسا پٹا سوال پوچھتے ہیں۔ میں اب تک سمجھ نہیں پایا کہ کہ لوگ بھولپن میں یہ سوال پوچھتے ہیں یا حقائق پر بات کرتے ان کے پر جلتے ہیں
بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی یہ بات دل کو چھو گئی کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے۔ چاہے اصلی ہو یا جعلی۔
چولستان کے صحرا اور اس کا سینہ چیر کر رزق کمانے والے کاشتکاروں کے درمیان زمین پر قبضے کی لڑائی شدت اختیار کر رہی ہے اور بعض بیرونی عوامل کی مداخلت کے باعث کاشتکار صحرا کے ہاتھوں اپنی زمین کھو رہے ہیں۔
مشہور مورخ سمانترا بوس کشمیر کے بارے میں اپنی کتاب 'روٹس آف کانفلیکٹ پاتھ ٹو پیس' میں لکھتے ہیں کہ اگر بھارت نے رتی بھر جمہوریت ہی کشمیر میں اپنائی ہوتی تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے، نہ بجلی یا پانی کے مطالبات آزادی کے جلوسوں پر منتج ہوتے، نہ بھارت نواز سیاسی جماعتیں مرکزی حکومت سے بدظن ہوجاتیں اور نہ کروڑوں روپے فوج کی تعیناتی پر خرچ کرنے پڑتے۔
ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے
اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔