برف باری، رحمت یا زحمت
یوں تو ہر کشمیری سرما شروع ہوتے ہی برف باری کے انتظار میں ہوتا ہے کیونکہ برف گرنے کے نتیجے میں اُن بیماریوں سے نجات حاصل ہوتی ہے جو خوشک موسم کی وجہ سے کبھی وبائی صورت اختیار کرسکتی ہیں۔
یوں تو ہر کشمیری سرما شروع ہوتے ہی برف باری کے انتظار میں ہوتا ہے کیونکہ برف گرنے کے نتیجے میں اُن بیماریوں سے نجات حاصل ہوتی ہے جو خوشک موسم کی وجہ سے کبھی وبائی صورت اختیار کرسکتی ہیں۔
میرا یہ مقولہ میرے ہی بارے میں ہے۔ لہذا آپ کو پہلو بدلنے، مٹھیاں بھینچنے یا گریبان میں گردن ڈالنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔
بنگلہ دیش کی حکومت نے اس مرتبہ اپنے یوم آزادی کے موقعے پر سابقہ مغربی پاکستان کے سیاسی رہنماؤں ، شاعروں اور دانشوروں کو اپنے اعلیٰ سول اعزازت دیے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت اور اکثر عوام کے نزدیک ان افراد نے سابقہ متحدہ پاکستان میں مغربی بازو یعنی مغربی پاکستان سے سینہ چاکان مشرق کی قومی آزادی میں ان کی حمایت کی تھی۔
کشمیر میں حالیہ شورش کے دوران تقریبا چار ماہ تک تمام تعلیمی ادارے بند پڑے رہے جس کے باعث بچے اپنا نصاب مکمل نہیں کر پائے اور نہ ہی امتحانات میں شامل ہونے کے لئے تیار ہیں۔
بھاری بھرکم بُل ڈوزر آپ سب نے دیکھے ہوں گے۔ ان کا کام محض نئی تعمیر کی جانے والی سڑک کے لیے ڈالے گئے روڑوں یعنی پتھروں کو ایک لیول پر لانا ہوتا ہے۔ اونچے نیچے سب پتھروں کو ایک سطح پر لانا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کر سکتا۔
ایک پاکستانی چینل پر سولہ دسمبر کی مناسبت سے بعنوان 'ہم کے ٹھہرے اجنبی' ایک دستاویزی فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح ایک ایسے اکثریتی صوبے کو نوآبادی سمجھا گیا جو قیامِ پاکستان کا نہ صرف پرجوش حامی تھا بلکہ تقسیم کے وقت یہ خطہ اپنی مرضی سے نئے ملک کا حصہ بنا۔ لیکن پھر ہوا کیا؟
(یہ تازہ بلاگ میری تحریر نہیں بلکہ یوسف حسین آبادی کی کتاب تاریخِ بلتستان سے ایک اقتباس ہے)
بلتستان میں زمینوں کی سیرابی کے لئے قدیم زمانے سے گلیشئر پالنے کا رواج ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ جس بستی میں پانی کی قلت ہو وہاں کے لوگ دو بڑے گلیشئروں سے برف توڑ کر اس مقام تک لاتے ہیں جہاں نیا گلیشیئر پالا جائے گا۔
داد دیے بغیر نہیں رہا جاسکتا ہے۔
ایک تقریب میں جنوبی افریقہ کی ایک سابق سفارت کار سے ملاقات ہوئی تو گفتگو کے دوران ان سے پوچھا کہ کیا پاکستانی نوکریوں کی تلاش میں ان کے ملک پر بھی یلغار کیے ہوئے ہیں تو ان کا جواب تھا ہاں۔
کچھ سال پہلے میں لندن کے علاقے ہیکنی میں ایک فلیٹ میں رہتا تھا، جس کے باسیوں میں ایک یہودی لڑکی ڈیبرا بھی شامل تھی۔ اس فلیٹ کو چھوڑتے ہوئے ڈیبرا نے مجھے ایک چھوٹا سا تحفہ دیا تھا جسے بعد میں میں اپنے سامان میں رکھ کر بھول گیا۔
یہ سفارتی سونامی ہے جسے وکی لیکس کہا جا رہا ہے۔ وکی لیکس نے امریکہ کے چوری کیے ہوئے سفارتی راز کیا افشا کیے ہیں، رازوں کا ایک آسمان سا پھٹ پڑا ہے!
خراب موسم، گھر میں مرمت کا کام اور وکی لیکس کی جانب سے رازوں کا فاش ہونا ایسے میں تفریح ہو تو کیسے؟
ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے
اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔