میرے ایک دوست، جب پاکستان میں قانون توہین رسالت پر پی ایچ ڈی کر رہے تھے تو ان کے فیلڈ ورک میں یہ بھی شامل تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ پاکستان میں مذہبی خیالات رکھنے والوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہے کراچی، لاہور یا گجرانوالہ جیسے شہروں کے مصروف علاقوں میں جاکر کھڑے ہو کر وہاں سے گزرتے ہوئے داڑھی والے حضرات کو گنیں۔
جاری رکھیے
پچھلے پانچ روز میں نے سندھ بلوچستان کے سرحدی اضلاع جیکب آباد، شکار پور اور جعفر آباد میں گزارے۔ اس دوران سینیٹ کے چیرمین محمد میاں سومرو اپنے آبائی علاقے جیکب آباد میں تھے اور سندھ کے وزیرِ اعلی ارباب رحیم شکارپور آئے ہوئے تھے۔
جاری رکھیے
کیا دنیا میں انسانیت ختم ہوچکی ہے؟ انسان مرگیا ہے؟ اخلاقی قدریں مٹ چکی ہیں اور ہم واپس وحشی ہوگئے ہیں؟ اپنے معاشرے کی گھناونی حرکتیں دیکھ کر کیا ایسا نہیں لگتا کہ دور جاہلیہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے؟
جاری رکھیے
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں وسعت اللہ خان ہوں، ملکھا سنگھ یا رام گوپال یادو۔ میری ذہنیت تو جنوبی ایشائی ہی ہے۔ یہ راز مجھ پر اس وقت آشکار ہوا جب میں پہلی مرتبہ مئی انیس سو اکیانوے میں لندن پہنچا۔
جاری رکھیے
میں نے پاکسان نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے سربراہ کی برطرفی کی خبر سنی۔
میں نے یہ خبر سن کر سوچا کہ یہ کیا عجیب اتفاق ہے کہ یہ تو وہی جنرل ہیں جنہوں نے ایک بڑے تعمیراتی سیٹھ اور قبضہ گروپوں کے سب سے بڑے ’ملِِِک‘ کے خلاف موقف اختیار کیا تھا۔
جاری رکھیے
مشرف کے پاکستان میں دیپا کو زبردستی مشرف بہ اسلام کیا گیا ہے۔ کئی برس پہلے دیپا کے شہر ’سلام کوٹ‘ کو ’مشرف بہ اسلام‘ کر کے اسلام کوٹ کر دیا گیا تھا۔ جیسے ’رام باغ‘ ’آرام باغ‘ بن گیا۔
جاری رکھیے
پاکستان کے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرہ) کا دعوی ہے کہ الیکٹرانک پاسپورٹ متعارف کرانے کے نتیجے میں جہاں غیر قانونی پاسپورٹ کا ریکٹ ختم کرنے میں مدد ملی ہے وہیں یہ آسانی بھی ہوئی ہے کہ اس پاسپورٹ کی تفصیلات کمپیوٹرائزڈ نیشنل ڈیٹا بیس کے ذریعے امیگریشن کے کمپیوٹر پر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
جاری رکھیے
سال نو کے لیے ہم سب نئے خواب پالتے ہیں۔ اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے کا عہد کرتے ہیں۔ مگر دنیا کے حالات دیکھ کر کبھی میں سوچتی ہوں کہ ہم خواب کیوں پالتے ہیں؟ امیدیں کیوں رکھتے ہیں؟ ہماری زندگی خوب سے خوب تر کیسے بنے جب ہر طرف بربادی، تباہی، ہلاکتیں اور تشدد ہے۔
جب چند لوگوں نے ہماری تقدیر بنانے کا ٹھیکہ لیا ہے تو ہم اپنی زندگی کا منصوبہ کیوں بنائیں؟
جاری رکھیے
کسی کو معاف کرنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔
لیکن کسی کومعاف نہ کرنا کتنا غیر ضروری اور خود کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس بات پر میں اس وقت اس لیے غور کر رہی ہوں کہ میں نے دیکھا ہے کہ روز بروز میری خفگفی اور شکایتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
جاری رکھیے
آج صبح جب میری آنکھ کھلی تو سان ڈیاگو کے آسمان کے منظر کی کیا بات تھی! شاید ایسی ہی خوبصورت صبح کے لیے جوش ملیح آبادی نے کہا ہوگا:
’ہم ایسے اہل نظر کو قبول حق کے لیے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی ‘
جاری رکھیے
میں نے کراچی کی مصروف شاہراہ طارق روڈ پر ایک مقامی دکاندار سے پوچھا یہ نذیر اسپورٹس کی دوکان کس طرف پڑے گی۔
جاری رکھیے
اپریل دو ہزار تین میں عراق کے معزول صدر صدام حسین کے مجسمے کے گلے میں رسی ڈال کر اسے زمین پر گرایا گیا تھا اور جوتیاں ماری گئیں تھیں۔ اس منظر کو پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں نے ٹی وی اور ویب سائٹس پر دیکھا تھا۔ اکتیس دسمبر کو عراق میں ذرا ’ترقی‘ ہوئی اور زندہ صدام حسین کے گلے میں مجسمے کے گلے پر ڈالی گئی رسی سے بھی ذرا موٹی رسی باندھی گئی اور انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا ۔ یہ منظر بھی دنیا بھر کے لوگوں نے اپنی ٹی وی اور کمپیوٹر سکرینوں پر دیکھا۔
بس فرق صرف اتنا تھا کہ یہ پتہ نہیں چلا کہ لاش کہ ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ کیا اسے بھی۔۔۔
جاری رکھیے
مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید ایک مرتبہ گہری سوچ میں بیٹھے تھے کہ ان کا ایک پیروکار دوڑتے ہوئے آیا اور جذباتی لہجے میں انہیں خوشخبری سنانے لگا: ’حضور آخر کار آپ کا دشمن مرگیا، میں یہ خوشخبری سنائے بغیر رہ نہیں پا رہا تھا اسی لیے دوڑا دوڑا آیاہوں‘۔
جاری رکھیے