حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے انٹرنیشنل جیورسٹس کمیشن کے مشن کے سربراہ دانو پرام کمار سوامی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ جو کچھ آرمی ہاؤس میں ہوا، کسی بھی مہذب معاشرے میں اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔
جاری رکھیے
انیس سو اٹھانوے کی مردم شماری کے مطابق اسلام آباد کی آبادی ساڑھے نو لاکھ ہے۔ اگر گزشتہ نو برس کی قدرتی بڑھوتری اور نقلِ مکانی کے عمل کو شامل کرلیا جائے تو اس وقت اسلام آباد اور اس کے گردونواح میں کم ازکم پندرہ لاکھ نفوس رہ رہے ہیں۔
جاری رکھیے
پاکستان میں کچھ ہفتے گزار کر واپس لندن پہنچے تو جہاز تو وقت پر پہنچ گیا اور امیگریشن میں بھی زیادہ وقت نہ لگا لیکن سامان لینے میں حالت خراب ہوگئی۔
جاری رکھیے
پاکستان میں ہر شے ڈبل ہے۔ لوگوں کی مصیبتیں بھی ڈبل تو لوٹ مار بھی ڈبل۔ باوردی صدر کی مدت صدارت بھی ڈبل تو فوجی سروس بھی ڈبل۔ ایسے سمے میں سیالکوٹ، ڈسکے اور وزیر آباد کے لوگوں کا پاکستانی حکومت اور بینکاری کے نظام پر نہیں ڈبل شاہ پر اعتبار ہے۔
جاری رکھیے
اسلام آباد میں ان دنوں بمبے ڈریمز نامی میوزیکل پرفارمنس دکھائی جا رہی ہے۔ مجھے لندن میں تو اسے دیکھنے کا موقع نہیں ملا اس لئے کل ارمان پورا کیا۔ اے آر رحمان کے بہت سے گانوں پر لڑکے لڑکیوں کی کوریوگرافی اور بیچ بیچ میں اسکرپٹڈ مکالمے۔
جاری رکھیے
اس وقت جو طبقہ سب سے زیادہ مسائل میں گھرا ہے، وہ میرے خیال میں متوسط طبقہ ہے مگر ان کی بات یا ان کی مشکلات کو کوئی سمجھتا یا ابھارتا نہیں جسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ یہ طبقہ خود اپنے مسائل کو اٹھانے میں کمزور ہے۔
جاری رکھیے
’ہم سب گوگول کے اوور کوٹ سے نکلے ہیں۔ ایک دن تم یہ بات سمجھ جاؤ گے۔‘ یہ جملہ میرا نائر کی حال ہی میں رلیز ہونے والی فلم ’نیم سیک‘ (یعنی ہم نام) کا ہے جس میں یہ اشوک گانگولی (اداکار عرفان خان) اپنے پسندیدہ روسی لکھاری گوگول کا نام رکھے ہوئے اپنے بیٹے (اداکار کال پین) سے کہتا ہے۔
جاری رکھیے
میں اب سوچ رہا ہوں کہ لال مسجد اگر پنجگور، خضدار یا کوئٹہ میں ہوتی تو مولانا عبدالعزیز اور ان کے چھوٹے بھائی غازی عبدالرشید کا کیا ہوتا۔
جاری رکھیے
مجھے نہیں معلوم یہ تناسب پاکستان میں کیا ہے لیکن برطانیہ میں ’سنگل پیرنٹ فیملی‘ یا ماں یا باپ میں سے کسی ایک کے اکیلے بچے پالنے کا تناسب پاکستانی نژاد خاندانوں میں 13 فیصد بتایا گیا ہے۔
جاری رکھیے
تم ہی بتاؤ یہ ماجرا کیا ہے؟ یہ مشرف دور حکومت ہے یا بقولِ شاعر ’پت جھڑ کا آخری جھونکا ہے‘۔ اسکے بعد نجانے بہاریں کیا ہوں گی؟ پاکستان کے عوام کے مقدر میں یا فوجی جنرل لکھا ہوتا ہے یا پھر نواز شریف یا بینظیر بھٹو! اب ہم اس نعرے کو نہیں دہراتے جو نواز شریف کے آخری دنوں سنا گیا تھا: ’لچی سی لفنگي سی، گنجے کولوں چنگي سی‘۔
جاری رکھیے
کیا ہوا اگر ایک ٹریکٹر ٹرالی پنجاب کے قصبے حافظ آباد کے ایک پرائمری سکول کی دیوار توڑ کر اندر گھس گئی اور نو بچے کچل ڈالے۔
جاری رکھیے
چند روز پہلے ایک میٹنگ میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ یہ میٹنگ لندن کے چند آزاد خیال لوگوں نے بلائی تھی جس میں پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتِ حال پر بات چیت کی گئی۔
جاری رکھیے
بالآخر آج بی بی سی اردو سروس بمعہ اہل وعیال اپنے نئے دفتر منتقل ہوگئی ہے۔ اہل وعیال سے مراد ڈاٹ کام، ریڈیو اور نئی ایف ایم ٹیم سے ہے۔
جاری رکھیے
سرسری سماعت کی فوجی عدالت سے
پندرہ کوڑوں کی سزا کے نشانات
تمہاری پشت پر آمروں کے لکھے ہوئے کسی آٹو گراف کی طرح آج بھی موجود ہیں
کوڑا کہ جسے تمہیں مارنے کے لیے ہٹا کٹا جلاد گھوم کر ہوا میں لہراتا ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ مارتا
اور تم ہر کوڑا اپنی پیٹھ پر سہتے ہوئے اس دھرتی کا شکر ادا کرتے جس سے عشق کی پاداش میں تمہاری ننگی پشت ٹکٹکی پر سجی تھی۔
جاری رکھیے
مغربی دنیا کے انداز نرالے ہیں۔ جب سے اس سرزمین پر قدم رکھا ہے کوئی رشتہ دار نہیں، زندگی کا کوئی اہم دن نہیں یا پھر کوئی واقعہ نہیں بچا ہوگا جو میں نے پاس ورڈ کے طور پر استعمال نہ کیا ہو۔ یہاں کی دنیا نہ صرف پاسورڈ پر چلتی ہے بلکہ ہماری پوری زندگی بھی۔
جاری رکھیے