پاکستان میں گزشتہ ایک ماہ سے سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ جن لاکھوں افراد کے سروں پر چھت نہیں تھی ان کے پاؤں تلے سے قدرت نے زمین بھی کھینچ لی۔ ایک جانب قدرت ہمارے ساتھ کیا کر رہی ہے تو دوسری جانب انسان اپنے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ ایک مختصر جائزہ:
جاری رکھیے
زمیں پر ہر طرف یوں شور برپا ہے
کہ لگتا ہے کسی لمحہ قیامت آنے والی ہے
نہائیت سنگ دل مصروف دنیا ہے
کسے فرصت ہے ، یہ آہوں کا دکھڑا کون سنتا ہے
جاری رکھیے
کئی برس پہلے کراچی میں میں پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج کے اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ سینما میں ایک پنجابی فلم دیکھنے گیا۔ فلم میں ایک جگہ ایک اہم خاندان اپنے ایک فرد کے قتل کا بدلہ لینےکی حکمت عملی پر غور کر رہا تھا۔
جاری رکھیے
پاکستان کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ سیالکوٹ میں پولیس کی موجودگی میں ہلاک کیے جانے والے دو سگے بھائیوں کے ملزموں کو بھی اسی جگہ لٹکایا جائےگا جہاں پر مقتول بھائیوں کو وحشیانہ تشدد کر کے ہلاک کیا گیا ہے۔
جاری رکھیے
میں دعا گو ہوں بھارت کی چالیس فیصد آبادی کے لئے جو خط غرُبت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور اُن کے مُنہ کا نوالہ چھننے والے وہ سیاست دان ہیں جو فوجی اور جوہری سرگرمیوں پر ملک کا خزانہ لوٹ رہے ہیں۔
جاری رکھیے
آپ کو نہیں لگتا کہ اب کے قدرت کی دہشتگردی میں سب کچھ پانی میں بتاشوں کی طرح تحلیل ہوتا جارہا ہے۔ گاؤں، شہر، گھر، یادیں، بچپن، زندگی سب کچھ۔ بلکل کسی کاٹن کینڈی پر پڑتے ہوئے پانی طرح۔
جاری رکھیے
اب تک حکومتِ پاکستان نے جو تخمیہ لگایا ہے اسکے حساب سے ڈیڑھ کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں اور پچیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین پانی تلے آئی ہے۔ پانچ لاکھ ٹن گندم کے ذخائر برباد ہوئے ہیں اور گنے کی بیشتر فصل ڈوب گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کہتی ہے کہ بحالی کے لیے اربوں ڈالر درکار ہیں۔
جاری رکھیے
سیلاب آئے گا اور بہت تباہی مچائے گا، یہ بات جنوبی پنجاب کے لوگوں کو بہت پہلے سے معلوم تھی۔ نا صرف عام لوگوں کو بلکہ انہیں بھی جن کی ذمہ داری قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے خود کو اور عوام کو تیار کرنا ہے۔ خدشات کے عین مطابق سیلاب آیا اور وہی ہوا جو اس کے بعد ہوا کرتا ہے۔
جاری رکھیے
دفتری مصروفیات کی وجہ سے سیلاب کے کوریج کے لیے قدرے دیر سے متاثرہ علاقے پہنچا تو اس دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔
جاری رکھیے
جب تک حکومتِ پاکستان اور اس کے ادارے نو آبادیاتی دور کی غلامانہ ذہنیت میں رنگے عمل داروں کے ہاتھ میں تھے، تب تک یہاں ہر ایک کی زندگی عذاب میں تھی۔
جاری رکھیے
سن انیس سو تریپن میں شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے بعد جب بخشی غلام محمد کو کشمیر کے تخت پر بٹھایا گیا تو انہوں نے بھارتی حکمرانوں سے خزانے کا منہ کھلا رکھنے کا زوردار مطالبہ کیا۔ حکمرانوں نے پوچھا کہ 'آپ اتنی بڑی رقم سے کیا کرنا چاہتے ہیں؟'
جاری رکھیے
پتہ نہیں کیوں، جب دریاؤں اور آنسوؤں کے بند ٹوٹ جاتے ہیں تو پاکستان کے اکثر لوگوں کو ذوالفقعار علی بھٹو یاد آتے ہیں۔
جاری رکھیے
جب نو سال کا لڑکا بھارتی سیکورٹی فورسز کے سامنے سینہ تان کر چلائے کہ 'آؤ مجھے گولی مار دو یا میرے ملک کو چھوڑدو' تو کیا حکومت یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے مبرا ہوسکتی ہے کہ 'بچے کو چند روپے دے کر اکسایا گیا ہے' اور بجائے اس کو بچانے کے اس پر گولی چلائے؟ ایسے ہی مناظر آج کل کشمیر کی اکثر گلیوں میں نظر آرہے ہیں۔
جاری رکھیے