غائب جہادی
صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ غائب ہونے والے کسی شخص کو کسی سرکاری ایجنسی نے نہیں اٹھایا بلکہ یہ کام جہادی گروہوں کا ہے جو لوگوں کو زبردستی یا برین واش کرکے لے جاتے ہیں۔
صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ غائب ہونے والے کسی شخص کو کسی سرکاری ایجنسی نے نہیں اٹھایا بلکہ یہ کام جہادی گروہوں کا ہے جو لوگوں کو زبردستی یا برین واش کرکے لے جاتے ہیں۔
کہتے ہیں اکتوبر دو ہزار ایک میں افغانستان پر امریکی حملے کے وقت غازیان اپنے گھوڑوں سے بھی تیز رفتاری سے بھاگے تھے تو ان میں سے کئی مشہور چہروں نے اپنی ’روئے مبارک پوش‘ کرنے کیلیے حجاموں کی دکانوں کا رخ کیا تھا۔
پچھلے دو ہفتوں میں وکیلوں نے جس طرح سڑکوں پر نکل کر ڈنڈے اور آنسو گیس کے گولے کھائے ہیں، اس کے لیے وہ ہمت چاہیے جو کافی عرصے سے مارکیٹ میں شارٹ رہی ہے۔
وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز نے ہوانا میں کیوبا کے علیل رہنما فیدل کاسترو کی عیادت کی۔ دونوں رہنماؤں نے صدر بش کے حالیہ دورہً جنوبی امریکہ کے مضمرات پر تبادلہ خیالات کیا اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں نجی ٹی وی چینل جیو کے دفتر پر پولیس کے حملے کی شدید مذمت کی۔
پاکستان میں چیف جسٹس کو ہٹانے کا معاملہ ہر دن ڈرامے کا نیا ایکٹ پیش کرتا ہے۔ نو مارچ سے آج تک حکومت کے ہدایت کردہ ڈرامے میں ہر ایکٹ میں ایک نیا پہلو ضرور موجود ہوتا ہے ۔ گو کہ تماشائیوں کے لیے یہ سب تسکین کا باعث ہے مگر بے چاری حکومت کے لیے باعث امبریسمنٹ، جو سمجھ دیکھ کر بھی نئی ’ پیش کش‘ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
یہاں اُن قیدیوں کو جو امریکی فوجیوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور ان کا کہا مانتے ہیں’کیمپ ڈیلٹا چار‘ میں رکھا جاتا ہے۔
یہاں امریکہ کی کیلیفورنیا ریاست سے ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر پیٹ اسٹارک نے خدا کو ماننے یا نہ ماننے پر کروائے گئے ایک سروے میں بڑی ایمانداری سے جواب دیا کہ وہ خدا کو نہیں مانتے۔
مینوں سمجھ نئیں آندی کہ آخر دنیا پاکستان دے بی اے ایل ایل بی وزیرِ قنون محمد وصی ظفر دے مغر کیوں پے گئی اے۔
ہم امریکی فوج کی میزبانی سے گوانتاناموبے میں پہنچے ہیں اور اب امریکی فوج کے رحم و کرم پر ہیں۔
آج یعنی تیرہ مارچ سے ورلڈ کپ کے میچز کا باقاعدہ آغاز ہو رہا ہے۔ پہلا میچ پاکستان اور ویسٹ انڈیز میں کے درمیان ہے لیکن اس کا فیصلہ آج ہی ہو جائے گا۔ ادھر پاکستان میں بھی ایک میچ کا باقاعدہ آغاز آج ہوا ہے لیکن پتہ نہیں کہ اس کا فیصلہ جمعہ کو ہو گا، کسی جمعرات کو کہ ’پھر کبھی‘۔
میں واشنگٹن سے کوئی نو گھنٹے کی فضائی مسافت طے کرنے کے بعد امریکہ کے بدنامِ زمانہ حراستی مرکز گوانتاناموبے پہنچ رہا ہوں۔ اس سفر کا مقصد امریکہ کے اس انتہائی خفیہ رکھے جانے والے حراستی مرکز کا کچھ آنکھوں دیکھا احوال اکھٹا کرنا ہے۔
ایران کا جوہری پروگرام نہ صرف ہر ایک کے ذہن پر چھایا ہوا ہے بلکہ کچھ ملکوں کے لئے یہ بڑا درد سر بھی بنا ہے۔ لگتا ہے کہ پانچ بڑی طاقتوں سے یہ چوک ہوگئی کہ وہ وقت پر اس کا پیٹنٹ نہیں کر پائے تاکہ روگ ملکوں کو اس کی صلاحیت حاصل کرنے سے روکا جاسکتا۔
ہمارے دفتر میں کچھ مخصوص لوگوں نے مل کر ایک چائے کا فنڈ بنایا ہے۔ ہر ماہ سیکشن کا(تقریباً) ہر فرد پیسے دیتا ہے (ایک پاؤنڈ) جس کے بدلے میں ہمیں اپنے سیکشن کے اندر چائے بنانے اور پینے کی سہولت مل جاتی ہے۔
چند افراد نے اس نظام کو سنبھالنے کی رضاکارانہ طور پر ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ وہ ہر ماہ پیسے بھی جمع کرتے ہیں اور پھر سامان خرید کر بھی لاتے ہیں۔
لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
ابھی میں اس سے دس منٹ بھی نہیں ملی تھی کہ اس نے اسّی برس کی داستان زندگی چند لمحوں میں بیان کی اور مجھےاس بات کا خوب احساس ہوا کہ تنہائی کا کرب کتنا شدید ہوتا ہے۔
آج کل پاکستان کی وردی والی سرکار یعنی جنرل پرویز مشرف ایک سے ایک کاسٹیوم پہنے جلسوں سے خطاب کرتے دکھائي دیتے ہیں۔
تقریباً اس وقت جب سندھ بھر سے پولیس کی ضبط کردہ بسوں، ویگنوں، سوزوکیوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں میں ناظمین، ارکانِ پارلیمان و صوبائی اسمبلی اور انتظامی افسران اپنے اپنے حامیوں، قرض زدہ ہاریوں اور ماتحت اہلکاروں کو ڈھو ڈھو کر لاڑکانے کی جلسہ گاہ میں جمع کر چکے تھے۔
ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے
اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔