پنجاب پنجابی پر شرمندہ!
کچھ عرصہ پہلے لندن یونیورسٹی میں ایک پاکستانی طالبہ بتا رہی تھیں کہ کیسے بچپن میں جب وہ پہلی بار لندن آئیں تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ یہاں پاکستانی بچے صرف پنجابی اور انگریزی بولتے تھے۔ انہیں اردو نہیں آتی تھی۔
کچھ عرصہ پہلے لندن یونیورسٹی میں ایک پاکستانی طالبہ بتا رہی تھیں کہ کیسے بچپن میں جب وہ پہلی بار لندن آئیں تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ یہاں پاکستانی بچے صرف پنجابی اور انگریزی بولتے تھے۔ انہیں اردو نہیں آتی تھی۔
بھارت کے مرحوم کمیونسٹ رہنما جیوتی باسو موت کے بعد بھی انسانیت کے لیے کام آتے رہے۔ ان کی وصیت کے مطابق موت کے بعد کیا گیا۔
عافیہ صدیقی بھی ایک ڈرامائي کیریکٹر ہیں۔ پہلے انہیں غائب کردیا گیا یا وہ غائب ہوگئيں۔ پھر گرفتار ہو کر افغانستان سے کسی چھومنتر کی طرح نیویارک پہنچائي گئيں۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی طرف سے لاہور میں پنجابی میں تقریر کے بعد اعلان کیا گیا کہ وہ اب بلوچستان میں بھی اس کی مقامی زبان میں خطاب کریں گے۔
ہیٹی میں زلزلے نے یہ یاد دلا دیا کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔
ہم جو اتنی لمبی چوڑی پلاننگ کرتے ہیں کہ 'اگلے سال یہ کریں گے، اور پانچ سال بعد وہ کریں گے۔۔۔' یہ کافی فضول ہی ہوتی ہے۔
چند سال پہلے کی بات ہے جب میں اپنے علاقے میں لیبر پارٹی میں کافی فعال تھا۔ اپنے وارڈ میں لیبر پارٹی کی تنظیم نو میں مدد کرنے پر حلقے میں لیبر پارٹی کے سیکریٹری میرے کافی بے تکلف دوست بن گئے تھے۔ ایک دن ہم لیبر پارٹی کی قیادت میں تبدیلی کے معاملے پر بات چیت کر رہے تھے تو میرے دوست مارٹن چُیو نے مجھے بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گورڈن براؤن بہت اچھے لیڈر ہیں لیکن پارلیمان میں لیبر پارٹی کے اکثریتی انگلش ارکان کو ایک سکاٹش وزیر اعظم ہضم نہیں ہو سکے گا۔
دو ہزار دس کا آغاز بھی عجیب ہوا۔ پہلے ہی دن لکی مروت کے سٹیڈیم میں والی بال کا ٹورنامنٹ دیکھتے ہوئے بچے، بوڑھے اور جوان خون کے پیاسے شدت پسندوں کو نہ بھائے اور ایک ہی کار بم حملے میں سو کے قریب افراد کو ہلاک اور ساٹھ سے زائد کو زخمی کر دیا۔
پاکستان کے آج کل کے حالات دیکھ کر نہ جانے کیوں بچپن میں دیکھا ایک پروگرام بار بار یاد آ رہا ہے۔ یہ کوئی سائنس کا پروگرام تھا اور اس کے پرانے ہونے کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کی جو تصویر میرے دماغ کے کسی خلیے میں پھنسی ہوئی ہے وہ بلیک اینڈ وائٹ ہے۔
پاکستان کے آج کل کے حالات دیکھ کر نہ جانے کیوں بچپن میں دیکھا ایک پروگرام بار بار یاد آ رہا ہے۔ یہ کوئی سائنس کا پروگرام تھا اور اس کے پرانے ہونے کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کی جو تصویر میرے دماغ کے کسی خلیے میں پھنسی ہوئی ہے وہ بلیک اینڈ وائٹ ہے۔
میں نے بلھے شاہ نہیں دیکھا لیکن میں نے سیف بنوی کو دیکھا تھا۔ اسی لیے مجھے یقین ہے وہ نہیں مرا بلکہ اسکی قبر میں کوئي اور پڑا ہے۔
آج مجھے تقریباً دو سال پرانا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جب پاکستان میں اٹھارہ فروری سنہ دو ہزار آٹھ کو انتخابات ہوئے اور پولنگ شروع ہوئی تو قومی اسمبلی کی نشست کے ایک امیدوار حکیم بلوچ نے فون کیا کہ ایک مخصوص جماعت کے کارکن پولنگ سٹیشنز پر قبضہ کرکے بیلٹ پیپر پر ٹھپے مارکر ڈبے بھر رہے ہیں۔
پاکستان میں آجکل منتخب حکومت کے خلاف سازشوں کا ذکر کچھ زیادہ ہی تواتر سے ہونے لگا ہے۔ لیکن اگر تاریخ سے سبق سیکھا جائے تو سازشوں کے ذکر میں اور نہ ہی سازشوں کے وجود پر کسی کو حیرت ہونی چاہیے۔
سکول میں تعلیم کے دوران ریاضی کی ٹیچر نے کئی بار قدرتی توازن یا نیچرل بیلنسنگ کا سبق پڑھایا تھا لیکن میں کبھی نہیں سمجھ پائی۔ پھر مولوی ساحب نے قرآن شریف پڑھاتے وقت اکثر یہ بات دوہرائی کہ قدرت نے کائنات کا توازن برقرار رکھنے کے لئے کچھ اصول وضع کے ہیں اور ہر ایک کا اپنا کردار متعین کیا ہےگو کہ وقت کے تقاضے کے مطابق ہمیں اپنے طرز عمل میں کچھ تبدیلیاں بھی لانی پڑتی ہے مگر سِرے سے کسی کا کردار تبدیل کرنا قدرت کے منافی ہے اور اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن کے اُوپر سے گزر کر چلی گئی۔
سال دو ہزار دس میں کیا کیا بس ہونا چاہیے
ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے
اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔