سفر ہے شرط
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ہوائی جہاز نہ ہوتے تو کیسا ہوتا؟ مختلف رنگ، نسل اور مذہب کے وہ لوگاور ان کی بستیاں جن کے اوپر سے ہم آناً فاناً گزر جاتے ہیں ہم انہیں زیادہ قریب سے دیکھ سکتے اور شاید دنیا میں غلط فہمیاں بھی کم ہوتیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ہوائی جہاز نہ ہوتے تو کیسا ہوتا؟ مختلف رنگ، نسل اور مذہب کے وہ لوگاور ان کی بستیاں جن کے اوپر سے ہم آناً فاناً گزر جاتے ہیں ہم انہیں زیادہ قریب سے دیکھ سکتے اور شاید دنیا میں غلط فہمیاں بھی کم ہوتیں۔
آج تک مجھے حسرت ہی رہی کہ سوا تین سو صفحات کی انگریزی کتاب اڑتالیس گھنٹے میں ختم کرسکوں۔
گزشتہ دنوں کچھ لطیفے سنے۔ ان میں سے زیادہ تر مولویوں کے متعلق تھے اور سب کے سب ہی پنجابی میں تھے۔
میں نے برسات دیکھی ہے مگر صحرا میں برسات کا منظر پہلی بار دیکھا اور وہ بھی اس وقت جب ریت اور پانی میں لت پت بنجارن عورتیں بھیرو بابا کی بھینٹ چڑھانے لگیں۔
یہ شاید پرو مارشل لاء یا جھموریت مخالف ٹائيپ سیانے کا ہی قول کہاوت بنا ہوگا کہ ’چار کتاباں اتوں لتھیاں پنجواں لتھا ڈنڈا‘ (یعنی آسمان سے چار کتابیں اور اسکے بعد پانچواں ڈنڈا اترا۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر ووٹ ڈالتے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے کہا کہ دنیا تقسیم ہو چکی ہے۔ میں بھی شاید یہ من و عن تسلیم کر لیتا لیکن۔۔۔۔
کچھ لوگوں کو رمضان کے شروع ہونے پر بڑی الجھن ہوتی ہے۔ وہ اس لیئے کہ روزے دار انتہائی بدمزاج ہو جاتے ہیں اور پاکستان میں ہر کام کو انتہائی مشکل تصور کیا جانے لگتا ہے۔ دفاتر جلدی بند ہو جاتے ہیں، سب کے چہرے اترے ہوئے ہوتے ہیں اور کوئی اپنی ذممہ داریاں بھی پوری کرے تو وہ آپ پر اس کا احسان جتاتا ہے۔
دل چاہتا ہے کہ ایسے افراد سے پلٹ کر کہا جائے کہ’ آپ نے روزہ رکھا ہے، کسی پر احسان نہیں کیا، برداشت کیجیے اور برداشت کی صلاحیت نہیں ہے تو روزہ نہ رکھیں۔
پاکستان میں اپنے قیام کے دوران میرے ہاتھ بچوں کی ایک کتاب لگ گئی۔ ٹائٹل کچھ ایسا تھا کہ اس نے اپنی طرف متوجہ اور جب اسے پڑھنے لگا تو پھر پڑھتا ہی چلا گیا۔
خانہ بدوشی کے دوران گو کہ میں ایک نئی تہذیب سے واقف ہوگئی مگر کچھ ہفتوں کے لئے میں اپنی پہچان ہی کھو بیٹھی۔
ان لوگوں نے میرا نام پھیکی چائے والی رکھا ہے
آخر پوپ کو سوجھی کیا؟ کارٹون تنازعہ کی گرمی کم ہوئی نہیں تھی کہ ایک اور بیان۔
ایک روز میں جامعۂ لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ ایفرو سٹڈیز کے سامنے سے گزرا تو بہت سے طالب علم دھوپ کے مزے لوٹتے ہوئے نظر آئے۔
کسی نے درست کہا ہے کہ آپ اپنا مسئلہ کسی کو بھی نہ بتائیں کیونکہ اسی فیصد لوگ اس میں دلچسپی نہیں رکھتے اور باقی بیس فیصد اس پر خوش ہوتے ہیں۔ میں یہ کیوں لکھ رہا ہوں مجھے نہیں معلوم لیکن مسائل میرے ساتھ بہت ہیں اور میں لوگوں کو بتانے سے کبھی نہیں کتراتا۔ اب لوگ ہنستے ہیں یا لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں یہ ان کا مسئلہ ہے میرا نہیں۔
ہماچل کے بارے میں پھر کبھی بات کروں گی۔ آج پنجاب کے تھپ کور گاؤں کی یہ داستان سنانا چاہتی ہوں۔
فوربز میگیزین میں مائکل نویئر نامی صحافی نے ایک حالیہ آرٹیکل میں مردوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی نوعیت کی خاتوں سے شادی کرلیں، بس یہ خیال کریں کہ وہ کیرئیر والی خاتون نہ ہو۔‘
اس کی اشاعت پر میڈیا میںلیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر مرد اس رائے سے متفق ہونگے کیونکہ جب جوڑے کے دونوں فرد ملازمت کریں تو پھر دونوں کو گھریلو زندگی قائم رکھنے کے لیئے مل جُل کر کام کرنا پڑے گا۔
شرف النساء ایک پاکستانی خاتون تھی جو امریکہ میں سلائی کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی تھیں۔ پاکستانی اور ہندوستانی شلوار قمیض کے سوٹ۔ وہ ایسے شلوار قمیض کے سوٹ میرے ایک اور پاکستانی نژاد دوست کی امریکی سفید فام زوجہ کے بھی بناتی تھی۔
پانچ ماہ قبل ایک مسافر کوچ میں دیگر مسافروں کے ہمراہ لٹنے کے بعد میں نے کوچ میں ہی بیٹھنا چھوڑ دیا۔ لیکن کراچی سے حیدرآباد دوستوں سے ملنے کے لئے تو چار و ناچار انٹر سٹی بس میں ہی جانا پڑتا ہے۔
بہت دنوں بعد ایک تصویر مکمل کی۔ شروع کی تھی تو ذہن میں ایک لینڈسکیپ تھا۔ آسمان کا نیلا اور زمین کا بھورا رنگ بھرا تو اچانک اس تصویر نے خود ہی طے کر لیا کہ وہ لینڈسکیپ تو بالکل نہیں ہے۔
’کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تم اتنی جلدی ہم سے بچھڑ جاؤ گی‘۔ یہ پیغام لندن میں ہولبرن سٹیشن کے بالکل سامنے ایک ٹریفک لائٹ کے کھمبے کے نیچے پڑے ہوئے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ پڑا ہوا تھا۔
ایک مہینے کی چھٹی کے بعد کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ لیکن جب چھٹی پر تھے تو دل کرتا تھا کہ فوراً واپس چلے جائیں اور کام شروع کر دیں۔ وہاں اس بات کا بھی احساس ہوا کہ انسان وطن واپس چھٹی گزارنے جاتے ہوئے کچھ زیادہ ہی تھک جاتا ہے۔
میری بنجارن زندگی کا پہلا پڑاؤ ہماچل پردیش میں پڑا جس کو دیکھتے ہی میں نےنام بدل دیا۔
کئی روز سے سوچ رہی ہوں کہ نہاری کھانی چاہیے۔ لیکن وہ شان مصالحے یا دو گھنٹے میں تیار ہو جانے والی’ فاسٹ فوڈ ‘ نہیں بلکہ پوری رات ہلکی آنچ پر پکنے والی روایتی نہاری۔۔۔۔
مجھے ایسے شخص سے سب سے زیادہ خوف آتا ہے جو بالکل بے داغ، ہرفن مولا، جینیس، فوراً ہر معاملے کی تہہ تک پہنچ جانے والا اور اپنے علاوہ ہر ایک کو عقل و دانش میں ایک قدم پیچھے سمجھنے والا ہو۔
ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے
اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔