سپاہی کا سال
جنرل کیانی نے سپہ سالار بنتے ہی آئندہ سال کو ائیر آف دا سولجر قرار دیا۔ یعنی سپاہی کا سال۔ انکی
جنرل کیانی نے سپہ سالار بنتے ہی آئندہ سال کو ائیر آف دا سولجر قرار دیا۔ یعنی سپاہی کا سال۔ انکی
پاکستان کی افواج کے سپہ سالار جنرل کیانی اور انکے پیشرو جنرل مشرف کی علمی سطح دیکھ کر راقم کو یقین ہوگیا ہے کہ مشہور فلسفی سلاووئے ژیژک اب باقاعدہ فوجی نصاب میں شامل ہے۔
یہ سازش کم اور تھیوری زیادہ ہے۔ اور آج کل مارکیٹ میں آنے والی زیادہ تر نئی تھیوریوں کی طرح یہ بھی یوٹیوب کے ذریعے مجھ تک پہنچی۔ ویڈیو ایک گرفتار ہونے والے خودکش بمبار کی تھی لیکن ویڈیو سے زیادہ اس کے نیچے لکھے جانے والے تبصرے ہماری دماغی حالت کا پتہ دیتے تھے۔
اگرچہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس صاحب، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں تقرریاں روایت کے برخلاف کیوں چاہتے ہیں اور حکومت یا صدر کو ان کی اِس 'سفارش' کی تعمیل میں کیا خرابی دکھائی دیتی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے لوگ ہوں یا ان کی سرکاریں، مذاکراتی عمل شروع کرنے کے اعلان کے بعد ہی ہر کوئی پونے طرز کے حملے کے بارے میں ذہنی طور پرتقریباً تیار تھا اور اس انتظار میں تھا کہ یہ حملہ کہاں اور کس وقت ہوگا۔
ایک اخبار میں گزشتہ دنوں لندن میں افغانستان سے متعلق کانفرنس کے بعد کی ایک خبر کی شہہ سرخی پڑھی تو ایک عجیب سا سماں آنکھوں کے آگے بندھ گیا۔
گذشتہ چار سال سے کراچی میں ایک عالمی کتاب میلہ منعقد ہوتا ہے۔ یہ ایک تجارتی میلہ ہے جس میں پاکستان اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک کے ناشرین اپنے سٹال لگاتے ہیں اور کتابیں بیچتے ہیں۔
اگر آپ یہ انٹرنیٹ پر پڑھ رہے ہیں تو آپ کو یقیناً پتہ ہوگا کہ کیچ اپ کیا ہوتی ہے۔ بلکہ ہوسکتا ہے جس وقت آپ یہ پڑھ رہے ہوں تو ساتھ ساتھ آلو کے چپس کیچ اپ میں ڈبو ڈبو کر کھا رہے ہوں۔
آئندہ دس بلاگز میں ہم کوشش کریں گے کہ ان دس تہذیبی سازشوں کا احاطہ کیا جائے جنہوں نے گذشتہ دہائی میں ہماری زندگیوں پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے۔
برفانی طوفان رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ جمعہ کی دوپہر سے شروع ہوا ہے اور سنیچر کی شام ہوگئی ہے لیکن کپاس کی مانند نرم وگداز برف ہے کہ برسے ہی جا رہی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی اور اس کے اطراف کے علاقوں میں برف پڑنا کوئی انہونی بات نہیں لیکن اس اختتام ہفتہ کی برفباری نے تو ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
وادئ کشمیر میں حالات کیوں نہیں سدھرتے، ہلاکتیں کیوں نہیں رک جاتیں، بھارت پاکستان قیام امن کی پائدار کوششیں کیوں نہیں کرتے اور عسکریت پسند پُرامن جدوجہد کو ہائی جیک کیوں کرتےہیں؟ ظاہر ہے ان سوالوں کا جواب دینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا خود کشمیر کا مسئلہ ہے مگر جن کے پاس طاقت، اختیار اور آواز ہے وہ نہ کچھ سننا چاہتے ہیں اور نہ سننے کی تاب رکھتے ہیں۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے گزشتہ بدھ کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں اسلام آباد اور لاہور کے صحافیوں اور کالم نگاروں سے ملاقات کی اور اس ملاقات کے دوران انہوں نے کہا 'ہاں، میں انڈیاسینٹرک ہوں۔ لیکن اس کی چند وجوہات ہیں۔ فوج کی پالیسی اس وقت تک بحثیت ایک ریاستی ادارے کے تبدیل نہیں ہوسکتی جب تک کشمیر اور پانی کے مسائل حل نہیں کیے جاتے ہیں'۔
لندن۔ بدھ۔ دریائے ٹیمز کا کنارہ۔ جاڑوں کی ایک اور سرد رات۔ وسطِ ہفتہ منانے کے شوقین تنہا یا اپنی اپنی محبتوں کے ساتھ جیبوں میں ہاتھ ڈالے تیزی سے اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں تھے۔
دبئی میں چند دن گزارنے کے بعد ایک دوست نے کہا کہ ان کو اپنی گھر اور گاڑی دونوں بری لگنے لگی ہیں۔ یہی ہے یہاں کی چمکیلی دنیا۔ ریگستان کی ریت بھی سونے کے بھاؤ بیچ ڈالی۔ باقی کام پیٹرو ڈالر نے کر دکھایا۔ چند برس پہلے تک جو دشت و بیاں باں تھا آج وہاں سر سے ٹوپی گرانے والی عمارتیں کھڑی ہیں اور وہ بھی ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں۔
ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے
اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔